جولائی 1989 میں پاکستان میں پہلی ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش عمل میں آئی تھی اور پروفیسر راشد لطیف خان نے اس مشکل عمل کو پاکستان میں متعارف کرایا۔
چند ماہ پہلے ایک آئی وی ایف طریقہ علاج کا اشتہار نظر سے گزرا، جس میں والدین کو گود ہری ہونے کی نوید سنانے کے ساتھ ہی کلینک میں پری ایمپلانٹیشن جینیٹک ٹیسٹنگ یا PGT کی سہولت کی موجوگی بھی ظاہر کی گئی۔
اشتہار میں مستند حوالے کے طور پر پروفیسر راشد لطیف خان کا نام جلی حروف میں موجود تھا۔ سب سے انوکھی بات یہ تھی کہ والدین میں ’فیمیلی بیلنسنگ‘ کے نام پر بیٹے یا بیٹی کی جینڈر منتخب کرنے کی آرزو جگائی جا رہی تھی۔
اس اشتہار نے ہمیں چونکا دیا کہ قانوناً ڈاکٹر یا سونولوجسٹ فیٹس یا جنین کی صنف نہیں بتا سکتا۔
یہاں والدین کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ بیٹوں کے ماں باپ بننا چاہتے ہیں تو ہم سے رجوع کریں اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانیوں کو بیٹی کے بجائے بیٹے کتنے پسند ہیں۔
میرا خیال ہے کہ قانونی تقاضوں کی وجہ سے اشتہار میں ’بیٹے کے خواہش مند افراد رجوع کر سکتے ہیں‘ واضح نہیں لکھا گیا تھا ورنہ اشارہ وہ ہی تھا۔
اس سوچ یا خواہش کی وجہ سے ہی ہمارے ہاں خاندانی منصوبہ بندی ناکام اور آبادی میں اضافے کی شرح مسلم دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
2016 سے آبادی میں مسلسل اضافہ
آبادی کا دباؤ آج کی دنیا کا اہم مسئلہ ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آبادی اور وسائل کا توازن ہی حقیقی ترقی کی پہلی سیڑھی ہے۔
ورلڈ بینک کے 1960 سے 2020 کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کہتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے کم شرح آبادی 2016 میں 1.2 فیصد تھی۔
جب کہ سب سے زیادہ 1981 میں 4.4 فیصد تھی۔ اعداد و شمار یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں 2010 اور 2016 کے درمیان شرح آبادی میں واضح کمی دیکھی گئی جو 2.3 کے تناسب سے کم ہو کر1.2 تک گر گئی۔
لیکن پھر یہ رجحان بلندی کی طرف جانا شروع ہوا 2020 میں 1.7 اور پھر 2022 میں یہ شرح 1.9 تک پہنچ گئی ۔ ایک خبر کے مطابق پاکستان میں 2023 میں آبادی کی شرح 2.55 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
یہاں ہم جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر آبادی بڑھنے کے وجوہات ہیں کیا؟
UNFPA کے ڈاکٹر جمیل ’آگاہی مہم‘ کے قائل
ڈاکٹر جمیل چوہدری، پاکستان میں اقوام متحدہ کے آبادی کے پروگرام ’تولیدی صحت‘ کے ماہر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں آبادی میں مسلسل دباو کی، ایک نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں۔
سب سے پہلے خواتین کی تعلیم، غربت پھر بہتر خاندانی منصوبہ بندی کے ذرائع کی معلومات تک رسائی،بنیادی صحت کی سہولیات اور مراکز کا خواتین کی پہنچ سے دور ہونا آتے ہیں۔
خاص کر دیہی خواتین ان مشکلات کا زیادہ شکار ہیں۔ ڈاکٹر چوہدری نے فون پر بتایا کہ ان مشکلات کو دور کرنے کے لیے صوبائی حکومت کو زیادہ فعال ہونے اور مڈوائفری کے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
دیہی خواتین کے لیے جہاں صحت کے مراکز موجود نہیں، وہاں موبائل ڈسپینسری کی سہولیات سے خواتین کی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی سے آگاہی پہچانا بہتر عمل ہو گا۔
ساتھ ہی معاشرےمیں مسلسل آگاہی کے ذریعہ صحت مند زندگی کے پہلوں کو اجاگر کیا جائے۔ سوشل میڈیا کا استعمال بھی اچھا اقدام ہو گا کیونکہ آگاہی ہی اس مشکل کا توڑ ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پاکستان میں عموما خاندانی منصوبہ بندی کے لیے مانع حمل ادویات اور انجکشن کا استعمال کیا جاتا ہے۔
’غیر تسلی بخش اداروں اور ناتجربے کار عملہ سے کرایا گیا اسقاط حمل خواتین کی تولیدی صحت کو متاثر کرتا ہے۔
’جن کی وجہ سے انہیں مختلف انفیکشنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر نومولود کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے لیکن مسلسل آگاہی مہم کی وجہ سے ہی پاکستان میں نومولود میں شرح اموات پچھلے سالوں کے مقابلے میں کم ہو کر 56 فیصد ہو گئی۔‘
ہم بہترزندگی کیوں نہیں چنتے؟
ڈاکٹر شیر شاہ سید سمجھتے ہیں کہ ’خاندانی منصوبہ بندی کی طرف نہ جانے کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ جن ملکوں میں تیزی سے غربت بڑھتی جاتی ہے ان ملکوں میں خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنا مشکل تر ثابت ہوا ہے۔
’پاکستان میں اس وقت 44 فیصد گھرانے غربت کی لیکر سے نیچے رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کے گھرآنے کی قسمت زیادہ بچوں سے ہی بدلے گی۔
’انسانی وسائل بڑھیں گے، وہ کمائیں گے آمدنی میں اضافہ ہو گا۔ان کے دو تین بچے تو ویسے ہی مر جاتے ہیں۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ بچے ہونے چاہیں۔ پاکستان میں غربت کے ساتھ ساتھ ناخواندگی بھی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ کے ادارے برائے تعلیم کے مطابق تین کروڈ 70 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ جس میں سے اکثریت بچیوں کی ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹرشیر شاہ تعلیم کی کمی اور غربت کے ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کے اداروں میں ہونے والی کرپشن کو بھی خاندانی منصوبہ بندی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
پھر محفوظ اسقاط حمل امیر کو تو میسر ہے لیکن غریب کو یہ سہولت بھی نہیں ملتی جبکہ ڈاکٹر کا کام ہے کہ مریض کی مدد کریں۔ قانونی طور پر اگر خاتون کی زندگی کو خطرہ نہ ہو تو ماں کی مدد کی جائے گی۔
15-19سالہ نو عمرپاکستانی مائیں
ادارہ برائے شماریات کےسروے برائے آبادی 2020 کے مطابق پاکستانیوں کی 41 فیصد آبادی 15 سے 19 سال کےدرمیان تھی۔
جن میں سے 29 فیصد آبادی شہری جبکہ 48 فیصد دیہات میں بستے تھے۔ 2018-2019 میں یہ ہی شرح 54 فیصد تھی ،جس میں 38 فیصد شہروں میں اور 65 فیصد دیہی آبادی تھی ۔
رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ 2020 میں 15 سے 19 سال کی 60 لاکھ اور 23 ہزار نو عمر بچیاں شادی کے پہلے سال ماں بن چکی تھیں ۔
شہری علاقوں میں یہ شرح 62 لاکھ 75 ہزارتین سو 35 رہی جبکہ دیہی زندگی میں ایک کروڑ 33 لاکھ نو سو ایک لڑکیوں کی گود میں پہلا بچہ آچکا تھا۔
ان میں سے75 ہزارچار سو 19 نو عمر ماوں نے گھر پر بچوں کو جنا اور 11 لاکھ 27 ہزار60 ماوں نے سرکاری ہسپتالوں سے رجوع کیا۔ ایک لاکھ 50 ہزارچار سو 17 مائیں پرائیوٹ صحت کے مراکز پہنچیں۔
ان اعداد و شمار میں ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ2018 سے 2020 کے درمیان 15سال سے 49 سال کی عورتوں میں سے 43 لاکھ 21 ہزارپانچ سو 94 کم عمر لڑکیوں کے ہاں گھروں پر بچوں کی پیدائش ہوئی۔
یعنی آج بھی ایک بڑی تعداد میں بچوں کی پیدائش گھروں پر ہوتی ہے۔
بہتر مڈ وائفری کا نظام لازمی کیوں؟
اس سروے رپورٹ میں پاکستانی عورتوں کی بنیادی صحت کی کہانی کچھ اس طرح سنائی گئی کہ پاکستان کی کل ایک کروڑ 69 لاکھ سات ہزار ایک خواتین کو ڈاکٹر کی سہولت حاصل رہی۔
جن میں سے51لاکھ 98 ہزار79 خواتین اپنے صحت کے مسائل کے لیے لیڈی ہیلتھ وزیٹر سے رابطہ کیا ۔ 22 لاکھ 25 ہزار82 خواتین نے نرسوں سے علاج کرایا۔
32 لاکھ سات سو 11 خواتین مڈوائف اور 29 لاکھ 10 ہزارتین سو 28 خواتین دائیوں سے وضع حمل کرایا۔ 96 ہزار دو سو 91 لیڈی ہیلتھ ورکر جبکہ 10 لاکھ 50 ہزارسات سو 33 خواتین عزیزوں یا پڑوس کی خواتین کی خدمات حاصل کیں ۔
آبادی سروے رپورٹ 2022 کے اعداد و شمار سے یہ بھی واضح ہوا کہ ڈاکٹر کے بعد سب سے زیادہ وضع حمل دائیاں کرتی ہیں۔
جن کی شرح 16.34 فیصد ہے۔ اس کے بعد نرس پھر مڈوائفری کا نمبر آتا ہے۔ یعنی ہمیں لازمی ایک بہتر مڈوائفری کے نظام کی ضرورت ہے۔
خاص کر دیہی علاقوں میں ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ UNFPA کے مطابق 2023 میں پاکستان میں مڈوائفری کورس کو بین الالقوامی سطح پر لایا گیا ہے۔
جس سے خواتین کی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کو بہتر طور پر اپنانے میں مدد ملے گی۔
خواتین کی صحت مد نظر نہیں
پاکستان کے غذائی سروئے 2018 کے مطابق، 15 سے 49 سال کی 41 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ 10 فیصد خواتین میں خطرناک حد تک خون کی کمی ہے۔ 54 فیصد خواتین میں وٹامن ڈی کی کمی ہے جبکہ 25.7 فیصد میں شدید کمی پائی گئی ہے ۔
صرف 22.4 فیصد خواتین میں وٹامن اے درست سطح پر پائی گئی۔ 18.6 گھرانوں میں شدید غذائی قلت پائی گئی۔
جو براہ راست خواتین کی بنیادی صحت کو متاثر کرتاہے۔جب مائیں تندرست اور تواناں نہیں ہوں گی تو اگلی نسل کیسے بہتر ہوسکتی ہے۔
آبادی سروئے 2020 میں درج ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات 2.26 فیصد تھی۔ جس میں پہلے چار ہفتوں میں اموات کی شرح 42 فیصد ہے۔
جبکہ ایک سال کی شرح اموات 14 رہی۔ جب تک ہم ماں اور بچے کی صحت پر کام نہیں کریں گے، نومولود میں شرح اموات اتنی ہی رہے گی تو والدین مزید بچے پیدا کرنے میں دلچسپی رکھیں گے ہی۔
خاندانی منصوبہ بندی پر تحفظات
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے آبادی کے محکمے کے مطابق پاکستان کی 30 فیصد خواتین خاندانی منصوبہ بندی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
سلمٰہ کراچی ضلع جنوبی میں حکومتی سطح پر چلنے والے خواتین کی بنیادی صحت کی ڈسپینری میں کام کرتی ہیں۔
وہ پولیو مہم سے لے کر خاندانی منصوبہ بندی کے پروجیکٹ کی ٹیم لیڈر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’خاندانی منصوبہ بندی کو لوگ پسند نہیں کرتے۔ ہماری جب بھی کسی خاندان سے بات ہوتی ہے تو لڑکیاں تو پھر مان جاتی ہیں لیکن شوہر اور گھر کے بزرگ سمجھتے ہیں کہ پروگرام میں کچھ غلط ہے۔
’جبکہ دیکھا جائے تو ہم خاتون کی عمر، بنیادی صحت، بچوں کی تعداد کے بعد میاں بیوی کی باہمی رضا مندی سے ہی کوئی پروگرام شروع کراتے ہیں۔ وہ بھی ڈاکٹر کی نگرانی میں۔‘
ان کے مطابق ’مرکز میں انہیں پروگرام اور ادویات سے متعلق مکمل آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ کچھ ادویات کے مضر اثرات ہو سکتے ہیں ۔ لیکن ہر فرد پر اس کے اثرات کی سطح الگ ہو گی۔
’مجھے یاد ہے کہ ایک 29-30 سالہ خاتون چاہتی تھیں کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی پر جائیں لیکن ان کے شوہر تیار نہیں تھے۔‘
سلمہ کہتی ہیں کہ ’میں کتنی ہی خواتین کو جانتی ہوں جو وقت گزرنے کے بعد ہمارے پاس اسقاط حمل کے لیے آتی ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے بعد ڈاکٹر منع کر دیتے ہیں۔
’انہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی اور وہ کسی غیر مستند طبی عملے اور غیر معیاری کلینک تک پہنچ جاتی ہیں جس سے ان کی صحت ایک بار پھر داو پر لگ جاتی ہے۔‘
میاں بیوی کی تعلیم
ادارہ برائے شماریات کے آبادی سروے 2020 کے مطابق پاکستان میں تین کروڑ 33 لاکھ 53 ہزار آٹھ سو 77خواتین غیر تعلیم یافتہ ہیں ۔ ان پڑھ گھرانوں کی کل تعداد چھ کروڑ 98 لاکھ 73 ہزار دو سو 66 ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صرف 61.38 فیصد پاکستانیوں نے کبھی نا کبھی سکول کی شکل دیکھی ہے۔ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ صوبہ پنجاب اور تعلیمی بحران کا شکا ر صوبہ بلوچستان ہے۔ جہاں شرح تعلیم 32.52 فیصد ہے۔
ؤماہر نسواں ڈاکٹر صائمہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس زیادہ تر خواتین خاندانی منصوبہ بندی کی معلومات لینے آتی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ہم انہیں ان کی ضرورت کے مطابق مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن اکثریت واپس پلٹ کر نہیں آتیں کیونکہ میاں اور گھر کے بڑے انہیں اس طرف آنےسے روکتے ہیں۔
’جبکہ تعلیم یافتہ گھرانوں کے رجحانات مختلف ہوتے ہیں۔ جن خواتین کے ساتھ ان کے شوہر بھی ہم سے رجوع کرتے ہیں وہاں منصوبہ بندی کو اپنانا آسان رہا ہے۔ اس لیے تعلیم وہ نقطہ ہے جو اس مسئلہ کو حل کی طرف لے جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ہے کہ ’اس وقت ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہیں۔ تعلیم کی کمی، بنیادی صحت کی خراب کارکردگی، بہبود آبادی کے پروگرام تک رسائی اور آگاہی کی کمی اہم وجوہات ہیں۔
’لیکن جب تک بیٹے کی مائیں اور گھرانے پر جوش مبارک بادوں سے گونجتے رہیں گے خاص کر ’بیٹے سے نسل اور خاندان چلتا ہے‘ کی بازگشت رہے گی ۔ پاکستان آبادی کے دباو میں رہے گا۔‘
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔