گیلا من وزیر کی موت: ’والدہ کو اطلاع دینا ہے کہ بیٹا اب نہیں رہا‘

رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک حملے میں شدید زخمی ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ کی مرکزی کونسل کے رکن گیلا من وزیر بدھ کی شب ہسپتال میں دوران علاج چل بسے، جن کی میت کو آبائی علاقے شمالی وزیرستان لے جایا جائے گا۔

گیلا من وزیر کا تعلق شمالی وزیرستان کے گاؤں اسد خیل سے ہے  (گیلا من وزیر فیس بک اکاؤنٹ)

رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک حملے میں شدید زخمی ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سرکردہ رہنما گیلا من وزیر بدھ کی شب ہسپتال میں دوران علاج چل بسے، جن کی میت کو ان کے آبائی علاقے شمالی وزیرستان لے جایا جائے گا۔

گیلا من وزیر کو سات جولائی کو اسلام آباد کے سیکٹر بی 17 میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے مقدمے میں ان کے ساتھیوں نے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے آزاد داوڑ نامی شخص اور ان کے ساتھیوں کو نامزد کیا ہے۔

آزاد داوڑ کا تعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ہے اور پاکستان میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات میں وہ شمالی وزیرستان سے صوبائی اسمبلی کے حلقے کے لیے امیدوار تھے۔

واقعے کا مقدمہ گیلا من وزیر کے ساتھ موقعے پر موجود ساتھی پیر زاکیم خان کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، جس میں ذاتی تنازعے کا ذکر کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقدمے میں بتایا گیا کہ آزاد داوڑ اور گیلا من وزیر کے مابین گذشتہ عید کے پہلے دن گاڑی کی ٹکر کی وجہ سے گاؤں میں بحث و تکرار ہوئی تھی اور اسی وجہ سے آزاد داوڑ اور ساتھیوں نے گیلا من وزیر پر سات جولائی کو ڈنڈوں سے حملہ کیا، جس کی وجہ سے ان کے سر پر چوٹ آئی تھی۔

گیلا من وزیر پانچ دن تک اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے اور بدھ کو چل بسے۔

گیلا من وزیر کا تعلق شمالی وزیرستان کے گاؤں اسد خیل سے ہے اور وہ محنت مزدوری کی غرض سے کچھ عرصہ بحرین میں بھی مقیم رہے تھے۔

گیلا من وزیر کے بڑے بھائی عرفات وزیر دبئی میں تھے، جب انہیں اپنے بھائی پر حملے کی اطلاع ملی تھی۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں دبئی میں تھا کہ سوشل میڈیا پر دیکھا کہ چھوٹے بھائی گیلا من وزیر ایک حملے میں زخمی ہوگئے ہیں اور ان کی حالت نازک ہے۔ اسی وجہ سے دبئی سے پاکستان پہنچا، لیکن والدہ کو نہیں پتہ کہ گیلا من اب ہم میں نہیں ہے۔‘

گیلا من وزیر کی موت کا باعث بننے والے حالیہ واقعے میں ان کے ساتھ موجود زاکیم خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم گیلا من وزیر کے جنازے کو وزیرستان لے کر جا رہے ہیں لیکن ہماری لیے سب سے بڑی تشویش گیلا من وزیر کی بیمار والدہ کو ان کے جوان بیٹے کی موت کی اطلاع دینا ہے۔‘

زاکیم خان نے بتایا: ’بیماری کے دوران بھی گیلا من وزیر کی والدہ کو ان کے ایک رشتہ دار کے ہاں بھیجا تھا اور ابھی تک وہ وہیں پر ہیں، لیکن کسی طریقے سے ان کی والدہ کو اطلاع دینا ہے کہ ان کا بیٹا اب نہیں رہا۔‘

پی ٹی ایم کے سربراہ منظور احمد پشتین نے اسلام آباد میں پمز ہسپتال کے باہر میڈیا سے گفتگو میں مطالبہ کیا کہ گیلا من وزیر پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

 

گیلا من وزیر کا جنازہ اسلام آباد سے وزیرستان تک

پی ٹی ایم نے گیلا من وزیر کے جنازے کو وزیرستان لے جانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ جماعت کے رہنما زاکیم خان کے مطابق گیلا من وزیر کے جنازے کا مختلف علاقوں میں استقبال کیا جائے گا۔

پی ٹی ایم شمالی وزیرستان کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ قافلے کا پہلا پڑاؤ صوابی موٹروے انٹرچینج پر ہوگا جہاں سوات، مردان، دیر، اور صوابی کے لوگ گیلا من وزیر کا آخری دیدار کر سکیں گے۔

اس کے بعد بیان کے مطابق اگلا پڑاؤ پشاور موٹروے ٹول پلازہ پر ہوگا جہاں پشاور، خیبر، کوہاٹ اور دیگر قریبی اضلاع کے لوگ گیلا من وزیر کا آخری دیداد کریں گے۔

مزید کہا گیا کہ کرک اور بنوں میں قیام کے بعد گیلا من وزیر کو ان کے آبائی گاؤں شمالی وزیرستان لے جا کر سپرد خاک کیا جائے گا۔

گیلا من وزیر کی موت پر افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی، افغانستان کرکٹ ٹیم کے سٹار کھلاڑی راشد خان، انڈیا کے کمنٹیٹر دیوندر کمار سمیت پاکستان کی مختلف قوم پرست جماعتوں کے قائدین نے سوشل میڈیا پر تعزیتی پیغامات پوسٹ کیے ہیں۔

گیلا من وزیر کی ماضی میں گرفتاری

گیلا من وزیر پی ٹی ایم کے ساتھ ابتدا سے ہی وابستہ اور منظور پشتین کے قریبی ساتھیوں میں شامل رہے ہیں۔ ان کے خلاف حکومت اور ریاست مخالف بیانات اور تقاریر پر مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔

گیلا من وزیر کو جولائی 2023 میں ایک مقدمے میں پشاور سے گرفتار کیا گیا تھا جبکہ اس سے پہلے 2021 میں بھی ریاست مخالف تقاریر پر انہیں ان کے کچھ ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان