ٹی ٹی پی نے رہائی کے بعد معاہدے کے خلاف برتاؤ کیا: وزیر داخلہ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ ’طالبان کے پاکستان کی جیلوں سے باہر آنے کے بعد ہمارا اندازہ تھا کہ تحریک طالبان پاکستان اچھا برتاؤ رکھیں گے۔ تاہم انہوں نے اس طرح برتاؤ نہیں رکھا۔ یہاں سے دہشت گردی شروع ہوئی۔‘

26 نومبر 2008 کی اس تصویر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر لطیف محسود اور دوسرے جنگجوؤں کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں نے حکومت کے ساتھ معاہدے کے برعکس جیلوں سے باہر آنے کے بعد برتاؤ ویسا نہیں رکھا، جس کی امید کی جا رہی تھی۔

پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے جمعرات کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا: ’طالبان کے پاکستان کی جیلوں سے باہر آنے کے بعد ہمارا اندازہ تھا کہ تحریک طالبان پاکستان اچھا برتاؤ رکھیں گے۔ ہمارا اندازہ کچھ اور تھا۔ تاہم انہوں نے اس طرح برتاؤ نہیں رکھا۔ یہاں سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔‘

تاہم وزیر داخلہ محسن نقوی نے ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی تفصیلات بتانے سے یہ کہتے ہوئے گریز کیا کہ ’معاملہ سیاسی نوعیت اختیار کر جائے گا۔‘

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دوران اسلام آباد اور ٹی ٹی پی کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں پاکستانی طالبان جنگجوؤں کی ایک مخصوص تعداد کو افغانستان سے پاکستان آنے کی اجازت اور پاکستانی جیلوں سے رہائی دی گئی تھی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ اس معاہدے کا مقصد پاکستانی طالبان جنگجوؤں کو مین سٹریم میں واپس لا کر معاشرے کے مفید ارکان کی حیثیت سے بحال کرنا تھا۔     

کمیٹی کے رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے وزیر داخلہ محسن نقوی سے دریافت کیا: ’دہشت گرد افغانستان سے آئے یا یہیں اکٹھے ہوئے؟‘

اس پر محسن نقوی نے جواب دیا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے دہشت گرد اکٹھے ہونے کے بعد فعال ہوئے۔ اور تحریک طالبان پاکستان کے بیشتر دہشت گرد پاکستانی شہری ہیں۔‘ 

سینیٹر عرفان صدیقی نے اس معاملے پر وزیر داخلہ سے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’کتنے طالبان واپس جا چکے ہیں؟ عزم استحکام کے اہداف بتائیں؟ کن علاقوں میں شروع ہوگا یا شروع ہو چکا ہے؟‘

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا: ’عزم استحکام آپریشن شروع نہیں ہوا۔ وہ بات میڈیا تک پہنچی جو ہوئی ہی نہیں۔ یہ فیصلہ نیشنل ایکشن پلان کے چھ نکات پر عملدرآمد کرنے کے لیے ہوا، جس پر سب متفق ہیں۔

’اس (آپریشن) کا نام رکھا گیا، نہ مخصوص علاقوں کی بات ہوئی اور نہ کوئی ایسی بات ہوئی کہ ملک میں کوئی ایسی چیز ہو رہی ہو۔ نیشنل ایکشن پلان پر ازسر نو عملدر آمد کے لیے یہ فیصلہ ہوا۔‘

اس پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ میڈیا کو اس میں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ اس معاملے پر وفاقی وزیر نے پریس کانفرنس کی جس میں اس آپریشن کو اسی نام سے پکارا گیا۔

اس پر وزیر داخلہ نے کہا ’ہم تو خود پریشان ہیں کہ ہوا کیا ہے۔ بحث کچھ اور تھی، بات کچھ اور ہوئی۔‘

سیکرٹری داخلہ محمد خرم آغا نے کمیٹی کو بتایا کہ بشام میں چینی باشندوں پر حملے کے واقعے سے متعلق جے آئی ٹی بنائی گئی تھی اور اس سلسلے میں 11 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رواں برس مارچ میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بشام میں ایک بس پر خودکش حملے کے نتیجہ میں پانچ چینی انجنیئرز جان سے گئے تھے۔ حکومت پاکستان نے حملے میں افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے کا الزام عائد کیا تھا تاہم افغان حکومت اسے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے ملک کو اس معاملے میں ملوث کرنا درست نہیں ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین فیصل سلیم رحمان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں سینیٹر پلوشہ خان نے سوال اٹھایا: ’حالیہ حملوں میں ملوث کتنے لوگ پکڑے گئے ہیں؟‘

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ’چینی ہماری معیشت اور بہت سارے معاملات کا حصہ ہیں۔ صرف چینیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،اس کے پیچھے محرکات ہیں کہ ہمارے اور چین کے تعلقات کو بگاڑا جائے۔‘

سینیٹر ثمینہ ممتاز نے کہا جب تک کسی کو سزا نہیں ملے گی تب تک بم دھماکے ہوتے رہیں گے۔

سینیٹر عمر فاروق نے کمیٹی کو بتایا کہ ان پر دو مرتبہ حملہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ’جس چیک پوسٹ پر جاؤ بے عزتی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔‘

سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا ایک ڈیڑھ مہینے قبل ان کے گھر پر حملہ ہوا تھا۔

’آئے روز ہمیں کالز موصول ہوتی ہیں۔ ہم اپنے گھر سے نکل نہیں سکتے۔ سکیورٹی پر معمور اہلکار کہتے ہیں آپ تین بجے تک گھر پہنچ جائیں۔ صوبے کی طرف سے بھی ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔‘

وزیر داخلہ محسن نقوی نے صوبہ سندھ میں کچے کے علاقہ کے ڈاکوؤں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا ’صوبہ سندھ اور پنجاب کی حکومتیں کچے کا علاقہ میں آپریشن کر رہی ہیں جس کی قیادت سندھ حکومت کر رہی ہے جبکہ رینجرز بھی ان کی مدد کر رہے ہیں۔ مین سپر ہائی وے گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے پہلے کی نسبت اب محفوظ ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو پاکستان کوسٹ گارڈز کی جانب سے فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق گذشتہ برس 2023 جنوری سے لے کر رواں برس جولائی تک ملک سے غیر قانونی طور پر جانے والے 1411 پاکستانیوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ 130 غیر ملکی باشندوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں افغانستان، ایران اور نائجیریا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان