آپریشن عزم استحکام میں اندرونی اور بیرونی تحفظات

حکومت نے واضح کیا ہے کہ عزم استحکام آپریشن میں کوئی بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی نہیں ہو گی، جس کے نتیجے میں نئے ضم شدہ اضلاع سے مقامی آبادی کی نقل مکانی ہو۔

سکیورٹی اہلکار 31 جولائی، 2023 کو باجوڑ میں بم دھماکے کے بعد جائے وقوع پر (اے ایف پی/ عبدالمجید)

پاکستان نے دہشت گردی کے بڑھتے خطرات روکنے کی کوششوں میں توسیع کے لیے گذشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) پر ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران انسداد دہشت گردی کے لیے آپریشن عزمِ استحکام کا اعلان کیا۔

پاکستان انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیوں میں تیزی لانے کے لیے ملک بھر میں اور سفارتی طور پر دوسرے ہم خیال علاقائی ممالک کے ساتھ مل کر طالبان حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے کام کرے گا تاکہ دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لیے افغان سرزمین کا استعمال بند کیا جا سکے۔

اس آپریشن میں طاقت کے استعمال اور سماجی، اقتصادی، عدالتی و قانونی میدان میں اسے بہتر کرنے کے لیے کوششوں پر زور دیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ پوری قوم کا نقطہ نظر ہوگا جہاں ریاست کو دہشت گردی سے لڑنے کے لیے پالیسی کے دائرہ کار میں مدد فراہم کی جائے گی۔

اس کے ساتھ ہی حکومت نے واضح کیا ہے کہ عزم استحکام آپریشن میں کوئی بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی نہیں ہو گی، جس کے نتیجے میں نئے ضم شدہ اضلاع سے مقامی آبادی کی نقل مکانی ہو بلکہ یہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کا تسلسل ہوگا۔

اس آپریشن کا مقصد آپریشن ردالفساد کے ثمرات بتانا اور دہشت گردی کے بقایا خطرات سے نمٹنا ہے تاہم، آپریشن عزم استحکام کو جو چیز آپریشن ردالفساد سے مختلف کرتی ہے وہ افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر غیر قانونی سرگرمیوں یعنی غیر رسمی معیشت، سمگلنگ اور غیر قانونی سرحدی گزرگاہوں کو روکنے پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔

آپریشن عزم استحکام بارڈر کراسنگ کے لیے ویزا پالیسی پر سختی سے عمل درآمد، غیر رسمی معیشت کو باضابطہ ذرائع میں لانے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے سرحد پار حملوں کو ختم کرنے کے لیے سرحدی سکیورٹی کو بہتر بنانے میں ایک پالیسی فریم ورک فراہم کرے گا۔

اس آپریشن کو شروع کرنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستانی سیاست، ریاست اور معاشرہ تقسیم کا شکار ہے۔ اداروں کے پاس عوامی حمایت کا فقدان ہے جو کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے اہم ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں انسداد دہشت گردی کے پچھلے آپریشن کے بارے میں سوال کر رہی ہیں اور اس آپریشن کے حوالے سے ان کے تین بنیادی تحفظات ہیں۔

سب سے پہلے، پاکستانی سیاست اندرونی طور پر منقسم ہے اور ایک عوامی اتفاق رائے نہیں ہے جو کہ دہشت گردی کے خلاف کسی بھی کارروائی کی کامیابی کے لیے اہم ہے۔

دوسرا، فوجی آپریشن کے لیے وسائل ضروری ہیں جبکہ اس وقت پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور ملک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکجز پر چل رہا ہے۔ ملک کے پاس دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے مالی وسائل نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیسرا، پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ملک سے باہر ہے، یعنی ایران میں بلوچ علیحدگی پسند اور افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی پناہ گاہیں، لہٰذا، اگر پاکستان ایران اور افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں کو تباہ کیے بغیر اپنی سرزمین کے اندر دہشت گرد نیٹ ورکس ختم کرتا ہے تب بھی آپریشن عزم استحکام کے فوائد کم دکھائی دے رہے ہیں۔

پاکستان کے لیے دہشت گردی کا خطرہ وسیع، پیچیدہ اور کثیر جہتی ہے اور اسے ختم کرنے کے لیے طاقت کا استعمال ضروری ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔

فوجی طاقت کو مستقل سیاسی فوائد میں تبدیل کرنے کے لیے جو اقدامات درکار ہیں ان کی کمی ہے لہٰذا، پاکستان میں دہشت گردی کے مسائل صرف ایران اور افغانستان میں مقیم عسکریت پسند نیٹ ورکس تک محدود نہیں ہیں بلکہ نظام کے اندر موجود انتہا پسند تنظیمیں اپنے نظریاتی اور تزویراتی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ریاست کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

ایسے گروہوں کو آپریشن عزم استحکام جیسے اقدامات کے ذریعے کنٹرول کرنا مشکل ہو گا۔ ان کا خاتمہ ایک حقیقی جمہوری کلچر کو فروغ دینے سے منسلک ہے جہاں مرکزی دھارے کی جماعتوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے سیاست کرنے کی اجازت ہو۔

سفارتی طور پر پاکستان کو اپنے خطے سے تعاون ملنے کے امکانات کم ہیں جبکہ پاکستان کے برعکس چین اور روس جیسی ریاستیں افغانستان کو سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے بطور موقع دیکھ رہی ہیں۔ اس صورت حال میں وہ پاکستان کو کسی قسم کی انٹیلی جنس، فوجی یا مالی مدد کی پیشکش نہیں کریں گی۔

کالم نگار سنگاپور کے ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر