سوشل میڈیا کی مختصر رِیل ویڈیوز ایسا تارِ عنکبوت ہیں کہ ایک کو انگلی لگاؤ تو خود بخود اگلی ویڈیو، پھر اس سے اگلی ویڈیو کی جانب بڑھے چلے جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کچھ ساعتوں کے لیے فیصلہ سازی کی ساری قوت چھین لی گئی ہے۔ اب ساری دنیا ایک طرف اگلی ریل کو دیکھنا ایک طرف۔
ایسے ہی کچھ کم بخت لمحوں کا شکار میں بھی ہوئی، جو ایک مشہور مذہبی شخصیت کی ریل پہ کلک کر ڈالا۔
موصوف نے بہت لمبی تمہید کے بعد ایک عامیانہ سی بات بولی اور حاضرین کی آواز گونجی ’واہ واہ۔‘ مجھے تعجب ہوا کہ ایسی بھی کیا بات کر دی کہ اتنی سلامی مل رہی ہے۔ تعجب کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہی ویڈیو دوبارہ دیکھی۔ دو بار دیکھ کر بھی کلپ میں کوئی وزن نہیں لگا تو میں باورچی خانہ ستھرا کرنے کی ترکیب والی اگلی ویڈیو پہ چلی گئی۔
بس یہی وہ لمحہ تھا جب فیس بک کے خود کار نظام کو پتہ چل گیا کہ میڈم کو آج مذہبی مواد سننے کا شوق ستایا ہے۔ سو ہوا یوں کہ بن ڈھونڈے، بن کہے، بن مانگے فیس بک نے پاکستان کے چپے چپے میں چھپے ہیرے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے۔ کہیں مولوی، عالم، علامہ، کہیں پروفیسر صاحب اور کہیں خطیب، جو کچھ فیس بک سے بن پڑا سب میری بصارت کی نظر کر دیا۔
پہلے ہی عرض کر چکی ہوں کہ یہ رِیل والی سوشل میڈیا ویڈیوز نِرا تارِ عنکبوت ہیں۔ نازک ایسی کہ ایک کلک سے بند ہو سکتی ہیں اور طاقتور اتنی کہ صاحبان عقل و دانش بھی کئی کئی گھنٹے اس میں اپنا منہ دیے رہتے ہیں۔
خیر، تو فیس بک کی مہربانی کہ اس نے ایسے شدید مذہبی مناظرے دکھائے، جنہیں میں کم از کم حالت ہوش و خرد میں اختیاری طور پر کبھی دیکھنا نہ چاہوں۔
ایک کمرے میں تین چار مرد، سب مل کر بول رہے ہیں، سب کا گمان کہ میری مذہبی دلیل سب سے ٹھوس ہے، اس لیے جتنا اونچا بولوں گا اتنا ہی ثابت ہو گی۔ مذہبی کتب کے حوالوں سے لبریز یہ مباحثے انواع الاقسام کے ہیں۔
بعض میں دیگر مسالک و مذاہب کی تضحیک کا عنصر نمایاں ہے، بعض نے ہدف کسی ایک مذہبی ماہر کو بنا رکھا ہے، بعض کو موضوع بحث کچھ نہ ملا تو خواتین کے پیچیدہ مسائل پہ زبان کے گھوڑے دوڑا رکھے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سب سے مزے کی مذہبی ویڈیوز ان بظاہر جدید و آزاد خیال افراد کی ہیں جو مذہب پہ اپنی دانست میں عین الحق لیکچر دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی باور کرواتے رہتے ہیں کہ مذہب ایک انفرادی معاملہ ہے۔
یہ سائنس و ٹیکنالوجی کے بھرپور استعمال کی ترغیب دیتے ہیں، اپنی تقریر میں انگریزی کا تڑکا لگاتے ہیں، سوٹ بوٹ ٹائی شائی میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن بات جب خواتین کے حقوق کی آ جائے تو پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔
مذہب کے خود ساختہ ماہرین میں ایک قسم ان حضرات کی ہے جن کی زبان کو لگام نہیں یعنی جن کی زبان و بیان گالم گلوچ سے آراستہ ہوتی ہے۔ یہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر کسی پہ بھی اپنی گالی کا میزائل داغ سکتے ہیں۔
یہ شاید خوش گفتار بھی ہو سکتے ہیں لیکن چونکہ مجمعے کی واہ واہ ایک بھاری بھرکم گالی پہ مل جاتی ہے، اس لیے انہیں مذہبی کتب پہ تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی۔
مذہبی موضوعات پہ ویڈیوز کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پہ آئے روز بعض مشہور افراد کچھ ایسے مذہبی عنوان چھیڑ دیتے ہیں کہ جس سے دیگر مسالک و مذاہب کی دُکھتی رگ بری طرح پھڑک جاتی ہے۔ یوں ایک نہ ختم ہونے والے جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔
دو پارٹیاں بن جاتی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو کہتی ہے کہ دیکھو کیسا دلیل کے ذریعے ذلیل کر دیا۔ حالانکہ خاموش ناظرین دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ فریقین کے ہاتھ فہم و دانش اور اخلاق کی دولت سے خالی ہیں۔
ایک بات جو شاید دقیق تحقیق کی متقاضی ہے کہ مذہبی مباحثوں کے اس دنگل میں خواتین کیوں نہیں اترتیں؟ کیا کبھی آپ نے دیکھا کہ کوئی خاتون 24 گھنٹے میں ایک درجن افراد کو مناظرے کا چیلنج دے رہی ہو؟ کیا خواتین کو مذہب کا علم نہیں یا پھر لایعنی مذہبی مباحثوں میں دلچسپی نہیں؟
کوئی چار پانچ درجن خود ساختہ علاموں کو سن کر یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ علم حاصل کرنا تو مرد و عورت دونوں پہ فرض ہے لیکن لگتا ہے کہ اپنے آدھے پونے علم کی بنیاد پہ فتنہ پیدا کرنا صرف مردوں نے بظاہر خود پہ فرض کر لیا ہے۔
مکالمہ بلاشبہ حصول علم کا ذریعہ ہے۔ مکالمہ علم کو نکھارتا ہے۔ مکالمہ نئے سوالات کی جانب ابھارتا ہے۔ مکالمہ جواب ڈھونڈنے میں مدد کرتا ہے۔ مکالمہ پرانی غلطیوں کو سدھارنے میں مدد دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ مکالمہ اتفاق و اختلاف رائے کو سننے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے تاکہ اختلاف رائے بس رائے تک محدود رہے، ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان تک نہ آئیں، لیکن یہ سب تب ہوتا ہے جب مکالمہ واقعی مکالمہ ہو۔
آن لائن مذہبی مباحثے سب بھرے پیٹ کی مستی ہیں، جن کا عام آدمی کی علمی ضروریات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ مکالمے، مناظرے، مباحثے کے نام پہ ایک دوسرے پر تنقید کاسلسلہ ہے، جس کا نوع انسانی کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی علم المذاہب کی کوئی خدمت ہو رہی ہے، جو ہو رہا ہے وہ عدم برداشت کی شکل میں معاشرے میں نظر آرہا ہے۔
ان حضرات کی اپنی چند دن کی مشہوری اور واہ واہ سمیٹنے کی ہڑک ہے اور سوشل میڈیا کے پیٹ کا جہنم ہے، جسے بھرے جا رہے ہیں، بھرے جا رہے ہیں۔۔۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔