سعودی حکومت نے حال ہی میں انتہائی با صلاحیت غیر ملکیوں کو سعودی شہریت کے اعزاز سے نوازا ہے۔
سعودی قومیت حاصل کرنے والوں میں اہل علم، تخلیق کار، ڈاکٹرز، تحقیق دان، سائنس دان اور مختلف شعبوں میں پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے شامل ہیں۔
یہ اعزاز سعودی حکومت کے وژن 2030 کے تحت دیے گئے ہیں، جس کا بنیادی مقصد دنیا کے مختلف ممالک سے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کو سعودی عرب کی طرف متوجہ کرنا ہے۔
سعودی حکومت کی طرف سے ان افراد کو شہریت دینا ان مثبت تبدیلیوں کا تسلسل ہے، جو گذشتہ کچھ برسوں سے اس عرب ریاست میں رونما ہو رہی ہیں۔
اس سے پہلے سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت کام ہوا اور مذہب کی جدت پسندانہ تشریح کو بھی فروغ دیا گیا۔ ایسی ثقافتی تبدیلیاں بھی دیکھنے میں آئیں، جن سے آرٹ اور کلچر کو فروغ ملا۔
2021 میں سعودی عرب نے ایسے غیر ملکیوں کو شہریت دی تھی، جو اپنے شعبے میں ماہر تصور کیے جاتے تھے۔ ان میں ڈاکٹرز اور تعلیمی شعبے سے وابستہ افراد بھی شامل تھے۔
مسلم دنیا میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں یا غور و فکر کرنے والے اہل علم کے لیے بہت زیادہ ثقافتی گنجائش نہیں ہے، خصوصاً ایسے باصلاحیت افراد جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہوں۔
ایسے میں سعودی حکومت کا یہ اقدام امید پیدا کرتا ہے کہ مسلم دنیا میں شاید ان اقدامات کی بدولت کبھی نہ کبھی احیائے سائنسی علوم کی راہ ہموار ہو۔
صورت حال یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو روایتی مدارس میں صدیوں پرانا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ صرف پاکستان میں 36 ہزار سے زیادہ رجسٹرڈ مدارس میں لاکھوں طلبہ کو یہ پرانا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔
مدارس کے نصاب کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش انتہائی موثر ثابت نہیں ہوئی۔
ایک ارب سے بھی زیادہ آبادی رکھنے والے مسلم ممالک میں بہت کم افراد ایسے ہیں، جنہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کوئی نوبیل پرائز یا کوئی اور عالمی اعزاز حاصل کیا ہو۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے دوران دنیا میں مذہب کی ایک روایت پسندانہ تشریح پھیلائی گئی تاکہ مسلمان عالمی طاقتوں کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوں۔
عالمی طاقتوں نے مسلمانوں کے مذہب سے جذباتی لگاؤ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر کے سوویت کمیونزم کا مقابلہ کیا۔
اس کے لیے مسلم دنیا کے کئی حصوں میں بڑے پیمانے پر روایتی مدارس کھلوائے گئے اور مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ مذہب کی ایک جذباتی اور غیر عقلی تشریح کریں۔
اس طرز عمل نے شاید عالمی طاقتوں کو فائدہ دیا ہو لیکن مسلم ممالک میں اس نے سماجی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچایا اور نوجوانوں میں شدت پسندی کے جذبات ابھارے، جس سے سعودی عرب سمیت دنیا کے کئی ممالک متاثر ہوئے۔
یورپ کے کچھ ممالک کی جامعات کی تعداد مسلم دنیا میں پائی جانے والی تمام جامعات سے بھی زیادہ ہے، جب کہ ان ملکوں میں جتنے معیاری سائنسی، علمی اور تحقیقی آرٹیکل روزانہ کی بنیاد پر شائع ہوتے ہیں، اتنے مسلمان ملکوں میں شاید سال میں بھی نہ چھپتے ہوں۔
مسلم ممالک کے کئی حلقوں میں سائنس اور سائنسی فکر کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں کئی مذہبی رہنما یہ کہتے ہیں کہ وہ سائنس کو اپنے جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں۔
تاہم جدید دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بغیرکوئی مقام بنانا بالکل ناممکن ہے۔
آٹھ سے 13ویں صدی تک (کچھ مورخین کے مطابق 16ویں صدی تک) مسلم سائنس دانوں اور فلسفیوں نے نہ صرف یونانی علوم میں ایک نئی روح پھونکی بلکہ اسے مغرب تک بھی پہنچایا، جس نے یونانی علوم کی عربی تشریحات اور تراجم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے نہ صرف مغرب کی جامعات میں متعارف کروایا بلکہ اس میں خاطر خواہ اضافہ کر کے اس سے استفادہ بھی کیا۔
مسلم دنیا میں ابن رشد، جابر بن حیان، الفارابی، ابن عربی، الکندی، الرازی، ابن طفیل، ابن الہیثم، ابن سینا، البیرونی اور تقی الدین سمیت بے شمار سائنس دان اور فلسفی پیدا ہوئے، جنہوں نے علم کی جستجو میں اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارا۔
ہسپانیہ میں رہنے والے 12ویں صدی کے فلسفی ابنِ رشد نے جو کتابیں لکھیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کی راہ ہموار ہوئی، مگر تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ خود ابنِ رشد کی کتابوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے جلایا گیا۔
مسلم سائنس دانوں، فلسفیوں اور مفکرین کی ایک بڑی تعداد کا موضوع بحث فطرت، مادہ اور کائنات کی طبعی ساخت تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسلمانوں میں ایک ایسا بھی مکتبہ فکر رہا ہے، جو مذہب کی عقلی پیمانے پر تشریح کرنے کا قائل تھا لیکن بدقسمتی سے اس مکتبہ فکر کو جلد ہی دبا دیا گیا، گو کہ اس کے اثرات کئی صدیوں تک رہے۔
برنارڈ لیوس کے مطابق تقی الدین نامی ایک مسلم سائنس دان نے 16ویں صدی میں کہکشاؤں کے مشاہدے کے لیے ایک رصد گاہ خلافت عثمانیہ کے دور میں بنوائی، جسے مذہبی طبقات کے دباؤ کی وجہ سے ضائع کر دیا گیا۔
اسی صدی میں ڈنمارک کے ایک مسیحی سائنس دان نے بھی ایک رصد گاہ بنائی، جو ضائع نہیں کی گئی۔ یہ واقعہ مسلم معاشروں میں سائنس کی بےقدری کی عکاسی کرتا ہے۔
لیکن سعودی فیصلے سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ مسلم معاشروں میں ایک بار پھر سائنس کی اہمیت کو محسوس کیا جائے گا۔
جدید سائنس میں تحقیق کے لیے بہت مالی وسائل درکار ہوتے ہیں، جو سعودی عرب اور کئی دوسری عرب اور مسلم ریاستوں کے پاس ہیں۔
سعودی عرب کے دنیا کے دو طاقتور ترین ممالک چین اور روس سے بہتر تعلقات ہیں جب کہ اس کے مغربی ممالک سے بھی تعلقات خوشگوار ہیں۔
ریاض کو مسلم ممالک میں اپنے اثرو رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے وہاں کے تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کروانے میں مالی مدد کرنی چاہیے۔
مغربی دنیا نے ہتھیاروں اور جنگوں کے نام پر سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے اربوں بلکہ کھربوں ڈالرز ہتھیائے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاض اور دوسرے متمول عرب ممالک مل کر دنیا کی بہترین جامعات کے قیام کے لیے کوششیں کریں، جہاں مسلم اور ترقی پذیر ممالک سے طالب علموں کو بھی تعلیم و ریسرچ کی دعوت دی جائے۔
مثال کے طور پر کیوبا میں کئی ریسرچرز میڈیسن کے شعبے میں بہترین کام کر سکتے ہیں لیکن ان کے پاس سرمائے کی کمی ہے۔
ترقی پذیر ممالک کے ساتھ تعاون سے سعودی عرب کے سوفٹ امیج میں اضافہ ہو گا۔
سعودی حکومت معاشی معاملات میں سارا انحصار صرف تیل پر نہیں چاہتی۔ ماضی میں مغربی جامعات اور اداروں نے عرب دنیا سے تحقیق کے نام پر خطیر رقم لی ہے۔
اب سعودی اور عرب حکومتوں کو سائنس اور دوسرے شعبوں میں تحقیق اپنی سرزمین پر کرنی چاہیے۔ اس سے سعودی اور دوسری معیشتوں کو مالی اور معاشی فائدہ بھی ہوگا اور صرف تیل ہی ان کی معیشت کا انجن نہیں ہو گا بلکہ تحقیق اور ایجادات سے بھی ان کی معیشت کو فائدہ ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔