پاکستان کا آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کا سٹاف لیول معاہدہ

آئی ایم ایف کے مطابق اس نئے پروگرام کو فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی توثیق درکار ہے، جو پاکستان کے ’میکرو اکنامک استحکام کو مزید مضبوط کرنے اور زیادہ جامع اور لچکدار ترقی کے لیے حالات پیدا کرنے کے قابل بنائے گا۔‘

آئی ایم ایف کے مشن چیف برائے پاکستان ناتھن پورٹر (دائیں) اور پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب (بائیں) 14 اپریل 2024 کو اسلام آباد میں اپنی ٹیموں کے ہمراہ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے دوسرے جائزے کے موقعے پر (اے پی پی)

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے جمعے کو کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ 37 ماہ کی مدت کے لیے سات ارب ڈالر کے امدادی پیکج کا سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ اس نئے پروگرام کو فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی توثیق درکار ہے، جو پاکستان کے ’میکرو اکنامک استحکام کو مزید مضبوط کرنے اور زیادہ جامع اور لچکدار ترقی کے لیے حالات پیدا کرنے کے قابل بنائے گا۔‘

آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے چیدہ چیدہ نکات:

  • گذشتہ ایک سال میں پاکستان میں مہنگائی میں کمی ہوئی۔
  • پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر بہتر ہوئے، پاکستان میں معاشی استحکام کو فروغ حاصل ہوا۔
  • معاشی استحکام کے لیے پاکستان کو ٹیکس آمدنی بڑھانی ہوگی۔
  • قرض پروگرام کے دوران جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا حصہ تین فیصد تک بڑھایا جائے گا۔
  • پاکستان میں ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں منصفانہ اضافہ ہوگا۔
  • پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔
  • ریٹیل سیکٹر میں بھی ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے گا۔
  • پاکستان میں برآمدی شعبے سے بھی ٹیکس وصولیاں بہتر کی جائیں گی۔
  • پاکستان میں زرعی شعبہ بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔
  • صوبوں میں تعلیم اور صحت عامہ کے اخراجات بڑھانے ہوں گے۔
  • سماجی تحفظ کے لیے صوبوں کے اخراجات بڑھانے ہوں گے۔
  • صوبوں کو پبلک انفراسٹرکچر پر اخراجات بڑھانے ہوں گے۔
  • عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے صوبائی حصہ بڑھانا ہوگا۔
  • ٹیکس آمدنی بڑھانے کے لیے صوبوں کو ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔
  • صوبوں میں خدمات پر سیلز ٹیکس کی آمدن بڑھانی ہوگی۔
  • صوبوں کو زرعی آمدن پر انکم ٹیکس بڑھانے کےلیے قانونی سازی کرنی ہوگی۔
  • یکم جنوری 2025 تک وفاق اور صوبوں کو انفرادی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس سے متعلق ضروری قانون سازی کرنی ہوگی۔
  • سٹیٹ بینک مانیٹری پالیسی کے ذریعے مہنگائی کو قابو کرے گا۔
  • زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم بنانے کے لیے سٹیٹ بینک کو ایکس چینج ریٹ لچک دار رکھنا ہوگا۔
  • ایکس چینج ریٹ کے استحکام کے لیے فاریکس کاروبار میں شفافیت لازمی ہے۔
  • توانائی کے شعبے کے لیے  مالیاتی  رسک کو محدود کرنا ہوگا۔
  • توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے ذریعے توانائی کی لاگت میں کمی کرنی ہوگی۔
  • سرکاری کارپوریشنز کی کارکردگی بہتر بنائی جائے۔
  • سرکاری کاپوریشنز کے انتظامی امور نجی شعبے کے حوالے کیے جائیں۔
  • زراعت کے شعبے میں سبسڈی اور سپورٹ پرائس کو مرحلہ وار ختم کیا جائے۔
  • پاکستانی معیشت حالیہ سالوں میں عدم استحکام اور زبوں حالی کا شکار ہے۔ خصوصاً کرونا وائرس، یوکرین جنگ کے اثرات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور 2022 میں ملک میں آنے والے تاریخی سیلاب نے اسے مزید مشکلات سے دو چار کر دیا ہے۔

کم ہوتے ہوئے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر سمیت، قرض میں پھنسا پاکستان 2023 کے موسم گرما میں پہلا ایمرجنسی قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور ہوا۔

مختصر مدت کے لیے تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کے مکمل ہونے کے بعد پاکستان نے اپریل 2024 میں آئی ایم ایف سے قرض کے ایک نئے توسیعی پروگرام پر بات چیت کا آغاز کیا تھا۔

اس سلسلے میں ناتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف کی ٹیم نے 13 سے 23 مئی تک پاکستانی حکام کے ساتھ مختلف سطحوں پر بات چیت کی تھی، جس کے بعد آئی ایم ایف کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ قرض کے نئے پروگرام یا توسیعی فنڈ کے لیے ہونے والے مذاکرات میں سٹاف لیول معاہدے تک پہنچنے کی جانب اہم پیش رفت ہوئی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے رواں ہفتے ہی ایک بیان میں کہا تھا کہ ’آئی ایم ایف کے پاس جانا ہماری مجبوری ہے۔ وزیر خزانہ (محمد اورنگزیب) نے بھی کہا ہے کہ اگر ہم نے اصلاحات نہ کیں، اگر ہم نے کڑوے فیصلے نہ کیے تو پھر تین سال کیا، اس کے بعد بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اگر ہم تین سال بعد دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس گئے تو ڈوب مرنے کا مقام ہو گا۔‘

قرضوں کی شکل میں پاکستان کو ملنے والا حالیہ بیل آؤٹ پیکج حکومت کی جانب سے اصلاحات کے نفاذ کے عزم کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں ٹیکس کی شرح بڑھانے کی ایک بڑی کوشش بھی شامل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

24 کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں، 2022 میں صرف 52 لاکھ افراد نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے۔

یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال 25-2024 کے دوران حکومت پاکستان نے ٹیکسوں کی مد میں تقریباً 46 ارب ڈالر جمع کرنے کا ہدف رکھا ہے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔

ٹیکس کی آمدن میں اضافے کے لیے پاکستان کی ٹیکس اتھارٹی نے رواں ماہ کے اوائل میں ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے صارفین کے 2 لاکھ 10 ہزار سم کارڈز بلاک کردیے تھے۔

آئی ایم ایف کے ایک اور اہم مطالبے پر توجہ دیتے ہوئے پاکستان آنے والے سال میں اپنے مالیاتی خسارے کو 1.5 فیصد سے کم کرکے 5.9 فیصد تک لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے دیا گیا گذشتہ تین ارب ڈالر قرض کا نو ماہ کا معاہدہ پاکستان کے لیے لائف لائن ثابت ہوا تھا، تاہم اس کے لیے آئی ایم ایف نے صارفین کو دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے جیسی غیر مقبول شرائط بھی عائد کی تھیں۔

پاکستان کے معاشی اشاریوں میں گذشتہ چند مہینوں کے دوران بہتری ریکارڈ کی گئی ہے جہاں جون میں مہنگائی کی شرح 12.6 فیصد تک گری، جو مئی 2023 میں ریکارڈ 38 فیصد پر پہنچ چکی تھی، لیکن پاکستان کا غیر ملکی قرضہ 242 ارب ڈالر پر برقرار ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق 2024 میں بھی حکومت کی آدھی آمدنی قرضوں کی ادائیگی میں چلی جائے گی۔

عالمی مالیاتی فنڈ نے اس سال دو فیصد نمو کی بھی توقع کی ہے۔ ملک میں مہنگائی اب بھی تقریباً 25 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے، جس کی شرح میں 2025 اور 2026 میں آہستہ آہستہ کمی آنے کی توقع ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت