کیا موجودہ بجٹ کو آئی ایم ایف کا بجٹ کہنا درست ہے؟

مالی سال 2024-25 کا بجٹ پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا اور مہنگا بجٹ ہے، جسے پیش کرنے کے بعد سرکار تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔

پاکستانی شہری 11 جون 2019 کو کراچی کے ایک بازار میں سبزیاں خرید رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کی قومی اسمبلی نے 18 ہزار877 ارب روپے کا بجٹ منظور کر لیا ہے۔ پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا اور مہنگا بجٹ پیش کرنے کے بعد پاکستانی سرکار یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔

سرکار بے بس ہے کیونکہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ عوام اور کاروباری طبقے پر ٹیکسوں کے سونامی کے پیچھے آئی ایم ایف کا ہاتھ ہے نہ کہ حکمرانوں کا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کا یہ موقف درست ہے یا نہیں اور کیا واقعی یہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے؟

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر یہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہوتا تو وفاق اور تمام صوبے سرکاری تنخواہوں میں 20 سے 25 فیصد اضافہ نہ کر سکتے۔ آئی ایم ایف کبھی بھی تنخواہوں میں اضافے کو سپورٹ نہیں کرتا۔

’ایک اندازے کے مطابق یہ خرچ تقریباً ایک ہزار ارب روپے بنتا ہے۔ اگر عوام کو ریلیف دینا مقصود ہوتا تو یہ اضافہ روکا جا سکتا تھا لیکن بیوروکریسی اور سیاستدانوں کو نوازنے کے لیے عوام کی پرواہ نہیں کی گئی۔‘

ان کے مطابق: ’آئی ایم ایف حکومتی اخراجات کم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن حکومت نے اس کی یہ بات نہیں مانی بلکہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے تقریبا 1500 ارب روپے کا بجٹ رکھ دیا، جو پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ ہے۔

’آئی ایم ایف نے یہ بجٹ رکھنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اگر اس بجٹ کو کم کر کے 1000 ارب روپے کر دیا جاتا تو تنخواہ دار طبقے پر اضافی ٹیکس نہ لگانا پڑتا، دودھ پر سیلز ٹیکس بھی نہ لگتا، برآمد کنندگان پر بھی ٹیکس نہ لگانا پڑتا اور نہ ہی پیٹرولیم لیوی بڑھانا پڑتی۔

’لیکن حکومت نے اپنے چند وزیروں اور اتحادیوں کو ناراض کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ 24 کروڑ عوام کو ناراض کر دیا اور سارا ملبہ آئی ایم ایف پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو گئی۔‘

لاہور چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے انڈیپنڈنٹ اردو کو کہا کہ ’کیا آئی ایم ایف نے حکومت کو منع کیا ہے کہ وہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو ریویو نہ کرے اور مہنگی بجلی پیدا کر کے عوام اور انڈسٹری کو دے۔

’یہ سب اپنوں کو نوازنے کے بہانے ہیں۔ جس طرح کا بجٹ پیش کیا گیا ہے اس سے ٹیکس چوری بڑھے گی، ریٹیل اور انڈسٹری بند ہو جائے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ریئل سٹیٹ کی ٹرانزیکشن کرنے پر عام عوام کو کیپیٹل گین ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کیپیٹل ویلیو ٹیکس، سٹامپ ڈیوٹی ، 7E کے ٹیکسز اور ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرنا ہوں گے، جب کہ حاضر سروس اور ریٹائڑد سرکاری اور فوجی ملازمین پر ود ہولڈنگ ٹیکس نہیں لگے گا۔

’یعنی کہ عام عوام کی جیبوں سے پیسہ نکال کر بیوروکریسی کو مراعات دی جائیں گی۔ کیا یہ کرنے کے لیے بھی آئی ایم ایف نے کہا تھا یا یہ حکومت کی اپنی مرضی ہے؟‘ 

ایف پی سی سی آئی کے ممبر اور پاک ایران بزنس کونسل کے چیئرمین نجم الحسن جاوا نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت نے جب آئی ایم ایف کی نہ ماننی ہو تو وہ کئی راستے نکال لیتی ہے۔

’آئی ایم ایف نے زراعت پر ٹیکس لگانے کی تجویز دی لیکن اس میں چونکہ سیاستدان اور وڈیرے متاثر ہوتے ہیں اس لیے ٹیکس نہیں لگایا گیا بلکہ برآمد کنندگان پر ٹیکس لگا دیا۔

’آئی ایم ایف نے ریٹیلرز پر فکسڈ ٹیکس لگانے کے بارے میں کہا لیکن ن لیگ نے اپنا ووٹ بینک بچانے کے لیے آئی ایم ایف کی بات نہیں مانی۔

’آئی ایم ایف نے غذائی اشیا پر کم سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز دی لیکن حکومت نے دودھ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا۔ یہ حکومت کا بجٹ ہے، آئی ایم ایف کا نہیں۔‘

کرنسی ایکسچیبج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کئی مرتبہ درخواست کرنے کے باوجود حکومت نے کرنسی ایکسچیبج اور فارن ریمیٹنسز کو ایکسپورٹ انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا۔

’آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ملک میں زیادہ سے زیادہ ڈالرز لائیں۔ حکومت کے صرف ایک اس فیصلے سے دو سال میں ڈالرز کی آمد دگنی ہو سکتی ہے۔ اگر اس میں اشرافیہ کا مفاد ہوتا تو یقیناً کر دیتے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف کبھی بھی کسی شعبے میں ٹیکس نہیں لگاتا بلکہ اس کا ایک ہی مدعا ہے کہ اخراجات کم کریں اور آمدن بڑھائیں۔

’اب اخراجات کم کیسے کرنے ہیں اور آمدن کیسے بڑھانا ہے اس کا روڈ میپ اور پلاننگ حکومت نے آئی ایم ایف کو دینا ہوتی ہے نہ کہ آئی ایم ایف نے حکومت کو۔

’اس بجٹ میں جتنے بھی ٹیکس لگائے گئے ہیں یہ حکومت نے لگائے ہیں نہ کہ آئی ایم ایف نے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’ملک میں رہنا تو مشکل ہو چکا ہے لیکن حکومت نے ملک چھوڑنا بھی مشکل کر دیا ہے۔ مزدوری کرنے کے لیے بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کی اکانومی ائیر ٹکٹس پر 150 فیصد ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے اور دوسری طرف اسمبلی اراکین کے بیرون ملک دوروں میں مزید مراعات بڑھا دی گئی ہیں۔

’پچھلے مالی سال میں ائیر ٹکٹس استعمال نہ کرنے پر سال کے اختتام پر کینسل ہو جاتی تھیں لیکن موجودہ مالی سال میں وہ ٹکٹس اگلے سال بھی استعمال ہو سکیں گے۔ کیا عوام کے سفری اخراجات بڑھا کر وزیروں کو سفری مراعات  دینے کے لیے بھی آئی ایم ایف نے دباو ڈالا تھا؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’عوام کے ٹوکن ٹیکسز اور ٹول ٹیکسز میں اضافہ کر کے وزرا کے سفری الاوئنسز 10 روپے فی کلومیٹر سے بڑھا کر 25 روپے کر دیے گئے ہیں۔

’یعنی کہ عوام کی خون پسینے کی کمائی سے وزرا کو 150 فیصد اضافی الائونس دیے جائیں گے۔ کیا اس کی ہدایت بھی آئی ایم ایف نے دی تھی؟‘

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ