پرانی گاڑیوں کو نئی زندگی دینے والے مردان کے ڈینٹر

کرامت شاہ کے مطابق شروع میں وہ اپنے لیے گاڑی کو شوقیہ موڈیفائی کرتے تھے، لیکن بعد میں لوگوں نے بھی ڈیمانڈ شروع کردی اور اب ’لوگ آکر کہتے ہیں کہ ایسی گاڑی بنائیں کہ دور سے نظر آئے۔‘

مردان کے رہائشی کرامت شاہ کو بچپن سے گاڑیوں کا شوق رہا ہے اور اسی شوق کو آگے بڑھاتے ہوئے اب تک وہ 900 سے زائد پرانی گاڑیوں کو موڈیفائی کرکے نئی شکل دے چکے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے والد اور بھائی کے ساتھ گاڑیوں کی ڈینٹنگ پینٹنگ کی ورکشاپ میں کام کرتے تھے، جس کے بعد انہوں نے اسلام آباد میں مختلف کمپنیوں کی ورکشاپوں میں کام کیا اور سرٹیفیکیٹ لینے کے بعد مردان شہر میں اپنی ورکشاپ کھول لی۔

40 سالہ کرامت نے بتایا کہ شروع میں وہ اپنے لیے گاڑی کو شوقیہ موڈیفائی کرتے تھے، لیکن بعد میں لوگوں نے بھی ڈیمانڈ شروع کی۔

بقول کرامت: ’لوگ آکر کہتے ہیں کہ ایسی گاڑی بنائیں کہ دور سے نظر آئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ گاڑیوں کو موڈیفائی کرنے کے شوقین زیادہ تر 27، 28 سال کے نوجوان ہوتے ہیں، جو مختلف گاڑیوں کی تصاویر یا ویڈیوز لے کر آتے ہیں کہ اس شکل کی گاڑی تیار کرنی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ 80، 82 ماڈل کی کرولا گاڑیوں کی لوگ زیادہ تر موڈیفیکیشن کرواتے ہیں اور وہ اب تک مختلف کمپنیوں کی گاڑیوں کو نئی شکل میں تیار کرچکے ہیں، جن میں سے 600 سے زائد گاڑیوں کو انہوں نے مکمل طور پر موڈیفائی کیا جبکہ تھوڑی بہت موڈیفیکیشن والی گاڑیوں کو ملا کر وہ اب تک 900 سے زائد گاڑیوں کو تیار کرچکے ہیں۔

ایک گاڑی کی تیاری پر آنے والے اخراجات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’خرچہ گاڑی کے مالک کی ڈیماند اور گاڑی کی حالت پر منحصر ہے۔ اگر گاڑی کی باڈی اچھی ہو اور سامان بھی کم لگے تو خرچہ کم ہو جاتا ہے اور اگر باڈی بھی خراب ہو اور سامان بھی زیادہ لگے تو خرچہ زیادہ آئے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ایک گاڑی پر دو لاکھ سے لے کر 20 لاکھ روپے تک بھی خرچہ آ سکتا ہے۔

کرامت نے بتایا کہ اتوار کے دن ورکشاپ میں لوگ آکر محبت کا اظہار کرکے گاڑیوں کے ساتھ اور ان کے ساتھ ویڈیوز بناتے ہیں۔

’میں اب اپنی ورکشاپ میں ایک نمائشی پارک بنا رہا ہوں، جس میں مختلف گاڑیاں ہوں گی اور لوگ پورے پاکستان سے گاڑیوں کو دیکھنے کے لیے آئیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی