لندن پولیس تین برسوں میں 160 علاقوں میں کسی جرم کا سراغ لگانے میں ناکام

برطانیہ کے ’چینل فور‘ کے دستاویزی شو ’ڈسپیچز‘ نے انگلینڈ اور ویلز کے 167 علاقوں کا سراغ لگایا ہے، جہاں پولیس نے 2021 اور 2023 کے درمیان ہونے والے جرائم میں ملوث ایک بھی مشتبہ شخص کی نشاندہی نہیں کی۔

نو اپریل 2024 کی اس تصویر میں میٹ پولیس کے اہلکار شمالی لندن میں آرسینل سٹیڈیم کے باہر تعینات ہیں (ایڈریئن ڈینس/اے ایف پی)

برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس نے گذشتہ تین برسوں میں 160 سے زائد علاقوں میں ہونے والے جرائم جیساکہ فون اور موٹر سائیکل چوری، ڈاکے اور گاڑیوں کے جرائم کی تحقیقات میں ایک بھی مشتبہ شخص کی نشاندہی نہیں کی۔

برطانیہ میں حل نہ ہونے والے جرائم کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی فورس بہت سی اقسام کے جرائم سے نمٹنے میں ناکام ہو رہی ہے جبکہ جرائم پیشہ افراد کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس کا کوئی خوف نہیں ہے۔

برطانیہ کے ’چینل فور‘ کے دستاویزی شو ’ڈسپیچز‘ نے انگلینڈ اور ویلز کے 167 علاقوں کا سراغ لگایا جہاں پولیس نے 2021 اور 2023 کے درمیان ہونے والے جرائم میں ملوث ایک بھی مشتبہ شخص کی نشاندہی نہیں کی۔ ان میں سے ایک کو چھوڑ کر باقی سب لندن میں میٹ پولیس کی حدود میں تھے۔

پولیس واچ ڈاگ کا کہنا ہے کہ زیرو ڈیٹیکشن ریٹ والے علاقوں کی تعداد ’ناقابل قبول‘ ہے۔

کانسٹیبلری کے چیف انسپکٹر اینڈی کوک نے کہا: ’میٹروپولیٹن پولیس کے پاس گذشتہ چند برسوں میں جرائم کی بہت زیادہ شکایات آئی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔۔۔تاہم زیادہ تر واقعات میں پولیس مجرمانہ تحقیقات کو مؤثر طریقے سے انجام نہیں دے رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بہت سے ایسے علاقوں کو دیکھتے ہوئے، جہاں ان میں سے کچھ جرائم میں نشاندہی کی شرح صفر فیصد ہے، یہ نا قابل قبول ہے۔ اگر پکڑے جانے کے امکانات اتنے کم ہیں، تو یہ کوئی روک تھام نہیں ہے۔‘

کریسٹ ایڈوائزری کی جانب سے ڈیٹا کے تجزیے سے انکشاف ہوا کہ آکسفورڈ سرکس اور ریجنٹ سٹریٹ کے آس پاس کے ایک چھوٹے سے علاقے میں گذشتہ تین برسوں میں ایک شخص سے 10 ہزار سے زائد چوریاں ہوئیں، جن میں سے 99 فیصد سے زیادہ حل نہیں ہوئیں۔

ایک فون چھیننے والے نے شو (چینل فور ڈسپیچز) کو بتایا: ’پولیس کیا کر رہی ہے، اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ مجھے اس کے لیے گرفتار نہیں کیا گیا، ٹھیک ہے؟ اور نہ ہی میں پکڑا جاؤں گا۔ میں بس اس سب کو ایسے ہی دیکھتا ہوں۔‘

ایک اور اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ چوری شدہ فونز کی خرید و فروخت میں ماہانہ 12 سے 15 ہزار پاؤنڈ کماتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کو پارٹس نکالنے یا دوبارہ فروخت کرنے کی غرض سے، اَن لاک کرنے کے لیے چین بھیجا جاتا ہے۔

’ہر ایک سستے فون سے میں 100 سے 150 پاؤنڈ کما سکتا ہوں۔ اگر آئی فون 15 پرو میکس کی طرح ایک اچھا فون ہو تو میں 250 پاؤنڈ کما سکتا ہوں۔ ہر ماہ 12,000 سے 15,000 پاؤنڈ کمائے جا سکتے ہیں۔‘

ایک متاثرہ شخص، جن کا فون چھین لیا گیا تھا، نے بتایا کہ پولیس نے انہیں کہا کہ وہ ان کے کیس کو آگے نہیں بڑھا سکتے کیونکہ ان کے پاس کوئی سراغ، مشتبہ فرد یا سی سی ٹی وی نہیں ہے۔

دو ہفتے بعد ان کا فون چین کے شہر شینزین میں دکھائی دے رہا تھا، جو الیکٹرانک سامان کی تجارت کا ایک اہم شہر ہے۔

میٹ پولیس کے کمانڈر اووین رچرڈز نے کہا کہ افسران جرائم پیشہ افراد کی روک تھام کے لیے زیادہ جرائم والے علاقوں میں وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ڈکیتی کا متاثرین پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ یہ ایک جارحانہ اور پرتشدد جرم ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے نمٹنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے کیونکہ ہم لندن کو محفوظ بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

’ہم فون بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ مل کر فون کی دوبارہ فروخت اور استعمال کو روکنے کی غرض سے ان کے ڈیزائن میں تبدیلی لانے پر بھی کام کرہے ہیں کیوں کہ ہم کرمنل مارکیٹ کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جو ڈکیتی اور چوری کو فروغ دیتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ جب بھی وہ ڈکیتی یا چوری کا شکار ہوں تو جتنی جلدی ممکن ہو رپورٹ کریں تاکہ افسران جائے وقوعہ پر پہنچ کر تیزی سے تحقیقات کرسکیں۔‘

ہوم آفس کے ایک ترجمان نے کہا: ’اپنے علاقے واپس لینے کے مشن کے ایک حصے کے طور پر ہم مقامی برادریوں میں 13 ہزار پولیس افسران اور کمیونٹی سپورٹ افسران فراہم کرکے محلے کی پولیسنگ بحال کریں گے۔

’ہوم آفس پولیسنگ کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کرے گا تاکہ سزا کی شرح میں اضافہ ہو، زیادہ جرائم کو حل کیا جاسکے اور متاثرین کو انصاف فراہم کیا جاسکے اور پولیسنگ پر اعتماد بحال ہو۔‘

دستاویزی شو ’برطانیہ کی غیر حل شدہ جرائم کی لہر: ڈسپیچز ‘ چینل فور پر 16 جولائی کو رات 10 بجے دیکھا جا سکے گا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا