بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے ملازمتوں میں ’آزادی کے لیے لڑنے‘ والوں کی اگلی نسل کے لیے کوٹہ سسٹم کی مخالفت کرنے والوں کو ’پاکستانی ایجنٹ‘ قرار دیا ہے۔
وزیر اعظم کے اس بیان کے رد عمل میں یونیورسٹیوں کے طالب علم احتجاج کر رہے ہیں۔
بنگلہ کی انگلش نیوز ویب سائٹ دی سٹار کے مطابق اتوار کی شام حسینہ واجد نے وزیراعظم ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’جنگ آزادی‘ اور ’آزادی کے لیے لڑنے والوں‘ کے خلاف اتنی ناراضگی کیوں ہے؟
’اگر سرکاری ملازمتوں میں 1971 میں ’آزادی کے لیے لڑنے والوں‘ کے پوتے پوتیوں کو کوٹہ نہ دیا جائے تو کیا ان رضاکاروں کے پوتے پوتیوں کو دیا جائے جنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا؟‘
اس بیان کے چند گھنٹوں بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج شروع ہوا جو ملک کے دیگر بڑے تعلیمی اداروں میں بھی پھیل گیا۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق وزیراعظم کے اس بیان کو’تذلیل آمیز‘ قرار دینے والے طلبہ کا مطالبہ ہے کہ وہ کوٹہ سسٹم میں اصلاحات چاہتے ہیں تاکہ ہونہار طلبا کو منصفانہ مواقع مل سکیں۔
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں متنازع کوٹہ کی مخالفت کرنے والے اور حکمران جماعت عوامی لیگ کے حامی طلبہ کے درمیان پیر کو جھڑپیں بھی ہوئی ہیں جن میں کم از کم 100 افراد زخمی ہو گئے۔
اے ایف پی کے مطابق پولیس اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کیمپس میں کوٹہ مخالف سینکڑوں مظاہرین اور عوامی لیگ کی حمایت کرنے والے طلبہ کے درمیان گھنٹوں لڑائی جاری رہی، پتھر پھینکے گئے، لاٹھیوں اور لوہے کی سلاخوں سے ایک دوسرے کو مارا پیٹا گیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ کے پاس چاقو تھے جبکہ دیگر نے پیٹرول بم پھینکے۔
کوٹہ سسٹم کے تحت سول سروس کے نصف سے زیادہ عہدے مخصوص گروہوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جن میں پاکستان سے 1971 کی ’جنگ آزادی‘ کے ’ہیروز‘ کے بچے بھی شامل ہیں۔
مقامی پولیس سٹیشن کے اہلکار مصطتجا الرحمٰن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’دونوں گروپوں نے لاٹھیوں سے حملے کیے ایک دوسرے پر پتھر پھینکے۔‘
ایک اور پولیس انسپکٹر مسعود میاں نے بتایا کہ ’خواتین سمیت تقریبا 100 طالب علم‘ زخمی ہوئے ہیں اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا ہے جب کہ مزید زخمی لائے جا رہے ہیں۔‘
طلبہ نے رواں ماہ کے آغاز میں میرٹ پر مبنی نظام کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج شروع کیا تھا۔ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کی جانب سے کوٹہ سکیم کو معطل کیے جانے کے باوجود انہوں نے احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔
دوسری جانب کوٹہ مخالف مظاہرین نے تشدد کا ذمہ دار حکمراں جماعت کے حامی طلبہ کو ٹھہرایا ہے۔
کوٹہ مخالف مظاہروں کے نیشنل کوآرڈینیٹر ناہید اسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’انہوں نے ہمارے پرامن جلوس پر راڈوں، لاٹھیوں اور پتھروں سے حملہ کیا۔ انہوں نے ہماری خواتین مظاہرین کو مارا پیٹا۔ کم از کم 150 طالب علم زخمی ہوئے جن میں 30 خواتین بھی شامل ہیں اور 20 طالب علموں کی حالت تشویش ناک ہے۔‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس نظام سے حکومت نواز سیاسی گروہوں کے بچوں کو فائدہ ہوگا جو وزیر اعظم شیخ حسینہ کے حمایتی ہیں۔
76 سالہ حسینہ واجد نے جنوری میں ہونے والے مسلسل چوتھے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی جس میں حقیقی اپوزیشن جماعتوں کے بغیر ووٹنگ ہوئی تھی اور ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن دیکھنے میں آیا تھا جنہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
زخمی ہونے والے 26 سالہ طالب علم شاہینور نے کہا کہ مظاہرین پر اچانک حملہ ہوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے ڈھاکہ میڈیکل ہسپتال میں اپنے بستر سے بتایا کہ ’ہم پرامن طریقے سے اپنا جلوس نکال رہے تھے۔ اچانک، چھتر لیگ (حکمراں پارٹی کا سٹوڈنٹ ونگ) نے ہم پر لاٹھیوں، چھروں، لوہے کے راڈوں اور اینٹوں سے حملہ کر دیا۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ متعدد نجی یونیورسٹیوں کے سینکڑوں طلبہ نے کوٹہ سسٹم کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے ڈھاکہ میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی جس کی وجہ سے امریکی سفارت خانے کے قریب چار گھنٹے سے زائد وقت تک ٹریفک معطل رہی۔
ڈپٹی پولیس کمشنر حسن الزماں نے اے ایف پی کو بتایا کہ تقریبا 200 طالب علم سڑکوں پر دھرنا دے کر احتجاج کر رہے ہیں۔
حسینہ واجد کے ’تذلیل آمیز بیانات‘ کے خلاف ہزاروں طلبہ نے اتوار کی رات سے پیر کی علی الصبح تک درجن بھر یونیورسٹیوں میں مارچ بھی کیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کا موازنہ بنگلہ دیش کی ’جنگ آزادی‘ کے دوران پاکستانی فوج کے ہمدردوں سے کیا جاتا ہے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’یہ ناقابل قبول ہے۔ ہم کوٹہ سسٹم میں اصلاحات چاہتے ہیں تاکہ ہونہار طلبا کو منصفانہ موقع مل سکے۔‘
کوٹہ مخالف مظاہرین کے بقول بنگلہ دیش کے دوسرے شہر چٹاگانگ میں اتوار کی رات احتجاج کے دوران بھی تشدد ہوا۔
چٹاگانگ میں احتجاج کی قیادت کرنے والے خان طلعت محمود رفیع نے کہا کہ دو ساتھی مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’چھتر لیگ کے درجنوں کارکنوں نے ہمارے ایک جلوس پر حملہ کیا۔‘ طلبہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ صرف وہ کوٹے باقی رہیں جو نسلی اقلیتوں اور معذور افراد کے لیے ہیں اور کل ملازمتوں کا چھ فیصد ہے۔
بنگلہ دیش 1971 میں آزادی کے وقت دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل تھا لیکن 2009 کے بعد سے ہر سال اوسطا چھ فیصد سے زیادہ شرح سے ترقی کر رہا ہے۔
لیکن اس ترقی کا زیادہ تر حصہ فیکٹریوں میں کام کرنے والی زیادہ تر خواتین افرادی قوت کی وجہ سے ہوا ہے جو ملبوسات کی برآمد کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے لاکھوں طالب علموں کے لیے ملازمتوں کا شدید بحران ہے۔