معاشی درجہ بندی کے عالمی ادارے فچ نے پاکستانی معیشت اور سیاسی استحکام سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق موجودہ حکومت 18 ماہ قائم رہ سکتی ہے اور اس کے بعد ٹیکنوکریٹس کی حکومت بن سکتی ہے جبکہ عمران خان مستقبل قریب میں جیل میں رہ سکتے ہیں۔
فچ کے مطابق مالی سال 2024 میں سٹیٹ بینک آف پاکستان شرح سود 20.5 فیصد سے کم کر کے 14 فیصد تک لا سکتا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں بھی کمی آ سکتی ہے۔ روپے کی قدر میں نسبتاً استحکام رہنے کے زیادہ امکانات ہیں، تاہم اس کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی کے خدشات بھی برقرار ہیں۔ اس رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔
پہلا سوال معاشی درجہ بندی کے عالمی ادارے کے مینڈیٹ سے متعلق ہے اور دوسرا یہ کہ کیا فچ کی رپورٹ پاکستان میں مزید معاشی عدم استحکام کا پیغام دے رہی ہے؟
انڈیپنڈنٹ اردو نے اس حوالے سے حقائق جاننے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر فرخ سلیم، جو سابق حکومتی مشیر ہیں اور بین الاقوامی معاشی اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ’یہ رپورٹ فچ نے تیار نہیں کی بلکہ فچ نے پیسہ کمانے کے لیے ایک ذیلی ادارہ ’بی ایم آئی‘ بنا رکھا ہے، جو عمومی طور پر سیاسی صورت حال پر رپورٹ جاری کرتا ہے۔ ایک رپورٹ تقریباً 1600 سے 1700 ڈالر کی بیچی جاتی ہے اور جو بھی چاہے رقم ادا کر کے رپورٹ بنوا لے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ایسا نہیں ہے کہ ان اداروں نے ملکوں میں اپنے جاسوس چھوڑے ہوتے ہیں، جو انہیں خبر دیتے ہیں بلکہ یہ ماضی کے ڈیٹا کی بنیاد پر رپورٹ تیار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی سورس نہیں ہوتا۔ گذشتہ 75 سالوں میں دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت تک 24 وزیراعظم آچکے ہیں۔ ایک وزیراعظم اوسطاً ڈھائی سے تین سال گزار رہا ہے۔ موجودہ حکومت کو پانچ ماہ ہو گئے ہیں۔ شاید اسی بنیاد پر انہوں نے مزید 18 ماہ حکومت قائم رہنے کا وقت بتایا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’دنیا میں تین بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز ہیں، جن میں ایس اینڈ پی گلوبل، موڈیز اور فچ شامل ہیں۔ موڈیز نے بھی پاکستانی معیشت کو مستحکم کہا ہے۔ فچ کے ذیلی ادارے کے مطابق بھی مہنگائی اور شرح سود کم ہو گی اور اگر سیاسی استحکام رہا تو پاکستان استحکام سے ترقی کی طرف جا سکتا ہے۔ ادارے نے یہ نہیں کہا کہ حکومت 18ماہ قائم رہے گی بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر سیاسی انتشار پیدا ہوا تو پھر حکومت 18 ماہ ہی چل سکے گی۔‘
ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق: ’عمومی طور پر یہ رپورٹس بیرونی سرمایہ کاروں کے مطالبے پر بنائی جاتی ہیں، تا کہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کسی ملک میں سرمایہ کاری کرنا ہے یا نہیں۔ ایسی رپورٹس بنگلہ دیش اور انڈیا سمیت کئی ممالک کے لیے جاری کی جاتی ہیں۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ موجودہ رپورٹ کس کے کہنے پر تیار کی گئی ہے۔ فی الحال اس رپورٹ کے آنے کے بعد سٹاک ایکسچینج 1200 پوائنٹس گری ہے، جو سرمایہ کاروں کے عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر سرمایہ کاروں نے مارکیٹ گرائی ہے تو کوئی بات تو ہو گی۔‘
عارف حبیب لمیٹڈ کی ہیڈ آف ریسرچ ثنا توفیق نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’معاشی درجہ بندی کے ادارے سیاست سے متعلق رپورٹ جاری نہیں کرتے لیکن معاشی رپورٹ تیار کرنے کے لیے سیاسی رپورٹ تیار ضرور کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا: ’سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں کو الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ معاشی درجہ بندی کے ادارے سیاسی صورت حال پر بات کرسکتے ہیں لیکن ایسا پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ نئی حکومت کی فارمیشن کی خبر بھی معاشی درجہ بندی کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں دی ہو۔ اس حد تک جانا شاید مناسب نہیں۔ سیاست سے متعلق خبر مفروضہ ہے یا کوئی سورس، اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن عالمی اور مقامی سطح پر اس رپورٹ سے پاکستانی معیشت کو وقتی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ رپورٹ حتمی نہیں ہے۔ بلاشبہ فچ ایک قابل اعتماد ادارہ ہے لیکن ماضی میں یہی ادارے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی خبر دیتے رہے ہیں، جو درست ثابت نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ موڈیز اور آئی ایم ایف بھی قابل اعتماد ادارے ہیں اور انہوں نے مثبت معاشی اعداد و شمار کی پیش گوئی کی ہے لیکن مارکیٹ منفی خبر کا زیادہ اثر لیتی ہے۔‘
دوسری جانب کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا: ’ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ فچ رپورٹ پاکستانی عوام کی ذہن سازی کے لیے جاری کی گئی ہے۔ بعض اوقات سیاسی درجہ حرارت بھی ان طریقوں سے معلوم کیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’فچ رپورٹ متضاد باتیں کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مہنگائی اور شرح سود میں کمی کی توقع کی جا رہی ہے اور چینی سرمایہ کاری بڑھنے کی امید ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں سیاسی حکومت صرف 18 ماہ میں ختم ہو جائے گی تو ان حالات میں معاشی پالیسیاں بھی تبدیل ہو جائیں گی۔ ایسے میں سرمایہ کار اگلے 18 ماہ کے لیے اپنا سرمایہ لگانے کا خطرہ کیوں مول لیں گے؟]
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’چین تو اچھے اور برے دونوں حالات میں پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اصل فائدہ اس وقت ہوگا جب چین کے علاوہ دوسرے ممالک بھاری سرمایہ کاری لے کر آئیں گے۔ گو کہ فچ نے معاشی اعداد و شمار بہتر رہنے کی پیش گوئی کی ہے لیکن سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔