شفقت محمود کی سیاست کے 34 سال، کیا کچھ حاصل کیا؟

پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیر تعلیم شفقت محمود نے اعلان کیا ہے کہ وہ سیاست کو خیر باد کہہ رہے ہیں اور اب اپنا وقت تحریر اور تدریس پر صرف کریں گے۔

شفقت محمود 2017 کی اس تصویر میں میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں (شفقت محمود/ فیس بک)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود نے اتوار کو اعلان کیا کہ وہ سیاست کو خیر باد کہہ رہے ہیں اور اب اپنا وقت تحریر اور تدریس پر صرف کریں گے۔

1990 کی دہائی میں افسر شاہی چھوڑ کر سیاست میں قدم رکھنے والے شفقت محمود نے ایکس پر ایک بیان میں کہا: ’آج سے 34 سال پہلے میں نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر سیاست میں قدم رکھا۔  

’بہت سوچ و بچار کے بعد میں نے سیاست سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا ہے - میں اپنی باقی عمر تحریر اور تدریس کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’یہ فیصلہ نہ کسی پریشر کی وجہ سے ہے، اور نہ ہی میرا ارادہ کسی اور سیاسی جماعت میں جانے کا ہے۔ یہ اعلان صرف سیاست سے علیحدگی کا ہے اور اس کا تعلق وقت اور عمر کے تقاضے سے ہے۔ میں ان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں جو کہتے ہیں سیاست میں نوجوانوں کو آگے آنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی سفر میں انہوں نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کا رکن اور وفاقی و صوبائی وزیر رہے جبکہ انہیں جیل بھی جانا پڑا۔

’مجھے اطمینان ہے کہ میں نے ہمیشہ اپنی ساری ذمّہ داریاں نہایت ایمان داری سے سرانجام دیں اور ہر عہدے کو ایک فرض سمجھ کے نبھایا۔ اللّٰہ کا شکر ہے آج تک کسی نے ناجائز الزام تک نہیں لگایا۔‘

 سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی نے بتایا کہ ’شفقت محمود کا تعلق چیلیانوالہ منڈی بہاؤالدین کے مشہور سیاسی خاندان سے ہے اور اس گھرانے سے چوہدری جعفر اقبال، ذکا اشرف، عشرت اشرف، زیب جعفر وغیرہ سیاست میں آئے۔‘

ماجد نظامی نے بتایا کہ 2011 کے بعد تحریک انصاف کے عروج سے درجنوں افراد کو سیاسی فائدہ پہنچا، ان میں شفقت محمود بھی شامل تھے۔

’انہیں لاہور کے اہم ترین حلقے سے دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کا موقع ملا۔ جس حلقے میں شریف فیملی (ن لیگ) کے ووٹ درج تھے، وہاں مسلم لیگ ن کو دو مرتبہ ان سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔‘

 انہوں نے بتایا کہ قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد شفقت محمود تحریک انصاف کی جارحانہ سیاست میں ’مس فٹ‘ نظر آتے تھے۔

’لاہور میں ہونے والے احتجاجی جلسے جلوسوں میں بھی وہ محتاط انداز میں شرکت کیا کرتے تھے کیونکہ ان کا مزاج کبھی بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ، مار دھاڑ اور جلاؤ گھیراؤ والی سیاست کا نہیں رہا۔‘

ماجد نظامی کے مطابق ’شفقت محمود کا شمار تحریک انصاف کے عقابوں میں نہیں بلکہ فاختاؤں میں ہوتا تھا۔ اس لیے گذشتہ دو سال سے تحریک انصاف میں ان کی جگہ ختم ہوتی جا رہی تھی۔‘

شفقت محمود سول سروسز (سی ایس ایس) کا امتحان پاس کرنے کے بعد سے کئی اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔

1973 میں انہوں نے مقابلے کے امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کی اور اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کیں۔

پنجاب یونیورسٹی سے سائیکالوجی میں ماسٹرز ڈگری رکھنے کے باوجود انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے پبلک ایڈمنسٹریشن اور پبلک پالیسی میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔

اس نمائندہ نے شفقت محمود کا ان کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد کئی مرتبہ انٹرویو کیا۔

شفقت محمود سے اکثر پی ٹی آئی کے ظفر علی روڈ  لاہور پر واقع دفتر میں ملاقات ہوتی۔ میڈیا سے ان کا تعلق کافی اچھا تھا، سبھی صحافیوں کو ان کے ناموں سے جانتے تھے۔

عمران خان کی مہم میں آگے آگے رہتے۔ ان کی خاصیت یہ بھی تھی کہ جب بطور صحافی ان سے رابطہ کیا تو وہ ہمہ وقت جواب دینے کے لیے موجود ہوتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شفقت محمود سرکاری افسر کی حیثیت سے مختلف اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ڈپٹی سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری برائے وزیر اعظم سیکرٹیریٹ کام کرتے رہے۔

ابتدائی طور پر ان کا رحجان پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف تھا۔ 1989 میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت وہ وزیر اعظم سیکرٹیریٹ میں بطور ڈپٹی سیکرٹری کام کر رہے تھے۔

1990 میں جب پیپلز پارٹی حزب اختلاف میں تھی تو انہوں نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور پارٹی کے ترجمان کے طور پر کام کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ہی وہ 1994 میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے لیکن جب سابق صدر فاروق لغاری نے 1996 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کر کے نگران حکومت تشکیل دی تو وہ نگران کابینہ کا بطور وفاقی وزیر برائے خوراک، زراعت اور لائیو سٹاک حصہ بن گئے۔

1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو ختم کیا تو ان کو پنجاب کی صوبائی کابینہ میں بطور وزیر اطلاعات کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ انہوں نے 2000 میں کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔

2000 میں انہوں نے اپنی شناخت ایک تجزیہ کار اور کالم نگار کے طور پر بنانی شروع کی۔2011 میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور دسمبر 2011 سے 2013 تک پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات کے طور پر اپنے فرائض انجام دیے۔

2013 کے عام انتخابات میں وہ پہلی مرتبہ حلقہ این اے 126 لاہور سے مسلم لیگ ن کے مضبوط امیدوار خواجہ احمد حسان کو ہرا کر پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

2018 میں وہ لاہور میں اپنے ہی حلقے این اے 130 سے دوبارہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور عمران خان نے انہیں اپنی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت بنا دیا۔

عمران خان کی حکومت جانے کے بعد شفقت محمود پارٹی اجلاسوں میں تو دکھائی دیتے رہے لیکن زیادہ متحرک نہیں تھے۔ 21 جولائی کو اپنے سیاسی کیریئر کے اختتام کا اعلان کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست