دسمبر 2007 کی ایک سرد رات بیت اللہ محسود کی صدارت میں شدت پسند تنظیموں کے ایک اجلاس میں تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک ایسی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا جو 17 برس بعد بھی پاکستان کے لیے ایک بڑا دردسر بنی ہوئی ہے۔
آرمی پبلک سکول پشاور پر 2014 کے اندوہ ناک حملے کے بعد پاکستانی اور امریکی افواج کے نشانے پر آنے والی اس تنظیم کو تنظیمی اور بڑے حملوں کی صلاحیت کے اعتبار سے خاصا کمزور کر دیا گیا تھا۔ لیکن دوحہ میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے بعد سے اس میں دوبارہ جان پڑنا شروع ہوئی۔
اس معاہدے نے نہ صرف افغانستان میں طالبان کے دوبارہ قبضے کو ممکن بنایا بلکہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں 2021 کے بعد سے کافی حد تک اضافے کا سبب بنا۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جان لیوا دہشت گردانہ حملوں کی تعداد 2014 میں ڈیڑھ ہزار سے بتدریج کم ہوتے ہوئے 2020 میں 193 تک پہنچ گئی تھی۔
اس کے بعد اس میں دوبارہ اضافہ ہونا شروع ہوا اور 2024 میں اب تک یہ تقریباً چار سو تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں یقیناً بلوچستان میں جاری شورش کے واقعات بھی شامل ہوں گے لیکن عمومی صورت حال خطرناک تصویر پیش کرتی ہے۔
اس موقعے پر دو قابل ذکر پیش رفتوں نے اس کے دوبارہ احیا میں مدد دی۔ ان میں سے ایک تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کی سوات کے ملا فضل اللہ سے وزیرستان کے محسود قبیلے میں واپسی تھی۔ دوسرا ٹی ٹی پی ارکان کے لیے ایک نیا ’ضابطہ اخلاق‘ جاری کیا گیا جس کا مقصد مرکزی قیادت کے تحت مختلف دھڑوں کو متحد کرنا اور اختیارات اور ذمہ داریوں کی وضاحت کرنا، بقول اس کے ’جائز‘ اہداف کی نشاندہی کا عمل متعارف کروانا شامل تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد میں اضافہ، پروپیگنڈا مواد کی تواتر سے ترسیل، مقامی آبادیوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوششیں اور سابق علیحدہ ہونے والے گروہوں کے ساتھ دوبارہ اتحاد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کالعدم تنظیم دوبارہ بحال ہونے کی کوشش میں کافی آگے بڑھ چکی ہے۔
بلکہ ٹی ٹی پی کے امیر کے بقول وہ زیادہ حملے کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں لیکن ایک حکمت عملی کے تحت محدود کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو واضح طور پر افغان طالبان کا دباؤ ہوسکتا ہے لیکن دوسرا ماضی کی طرح کسی علاقے پر قبضہ حاصل نہ کرنے کی نئی پالیسی بھی ہو سکتی ہے۔
علاقہ حاصل کرنے کے بعد اس کا دفاع اس سے بھی زیادہ مشکل پہلو بن جاتا ہے۔ پاکستانی طالبان کی اس قسم کی حکمت عملی بےوقوفی ہوگی لہٰذا وہ رفتہ رفتہ ملک اور حکومت کو کمزور کرنے کی حکمت علمی پر زیادہ کاربند ہیں۔ اس میں بھی وہ سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا اور سیاست میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاکستانی ادارے پہلے ہی کافی تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں اور کسی حد تک اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں۔ یہ خلا شدت پسندوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو افغانستان سے باہر کارروائیاں نہ کرنے کی ہدایت کے باوجود بہت سوں نے ایسا کیا جس پر کوئی جواب طلبی نہیں ہوئی۔
ایک قابل ذکر پیش رفت ٹی ٹی پی کی صفوں میں افغان شہریوں کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اہم پہلو یہ تھا کہ جس کی پاکستان بھی بارہا شکایت کر چکا ہے کہ افغان طالبان کے ارکان نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی اور انہیں مدد فراہم کی۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ بڑی تعداد میں افغان طالبان اپنے ملک میں لڑائی کے خاتمے کے بعد سرحد پار متوجہ ہوئے ہیں۔ ان کے لیے بےکار بیٹھنے سے بہتر ہے کہ ہو اپنے ایجنڈے کو مزید آگے بڑھائیں۔
اس کا ایک ثبوت پاکستان کی جانب سے کئی خودکش حملہ حملوں میں افغان شہری ملوث ہونا بھی قرار دیا جاتا ہے۔
29 جنوری 2024 کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مذاکرات کاروں نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ارکان اور ان کے اہل خانہ کو افغان طالبان کی جانب سے باقاعدگی سے امدادی پیکج ملتے ہیں۔ تاہم یہ مالی امداد شاید آج کی بات نہیں۔ ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے ایک دوسرے کی مشکل اوقات میں کافی عرصے سے معاشی مدد کرتے آئے ہیں۔
یو این کا کہنا ہے کہ رکن ممالک مسلسل یہ رپورٹ کر رہے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی بڑی تعداد خطے میں سلامتی کی صورت حال کو کمزور کرتی ہے۔ افغانستان کے اندر سب سے بڑا خطرہ اب بھی داعش سے ہی ہے، جو خطے اور اس سے باہر کارروائی کی اب بھی صلاحیت رکھتی ہے۔
اسلام آباد میں موجود مغربی سفارت کار اس خدشے کا اظہار برملا کرتے ہیں کہ افغانستان مختلف ممالک کے خفیہ اداروں کی جانب سے شدت پسند تنظیموں کی سرپرستی کا پھر سے سرگرم میدان بن گیا ہے۔ افغان طالبان کی تردید اپنی جگہ لیکن اگر ٹی ٹی پی کی مبینہ مدد انڈیا اور دیگر ممالک کر رہے ہیں تو ایک سابق شدت پسند اور ٹی ٹی پی کے رکن احسان اللہ احسان الزام عائد کرتے ہیں کہ پاکستان داعش کی مدد کر رہا ہے۔
جس حکومت پر بھی ایسا کوئی الزام جب بھی لگا وہ اس کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ ٹی ٹی پی کے سربراہ ابو منصور عاصم (نور ولی محسود) کا بھی اصرار ہے کہ 20 سال سے اپنے وسائل سے یہ جنگ لڑی ہے اور مزید لڑ سکتے ہیں۔ لیکن یہ تنظیمیں سرکاری یا غیرسرکاری مالی مدد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔
اب شاید وقت ہے کہ ٹی ٹی پی سے جڑی حکمت عملی اور اس پر عمل درآمد کو سویلین حکمرانوں، قبائلی رہنماؤں اور دینی علما کے حوالے کیا جائے اور وہ قانون کی حکمرانی اور عوامی ضروریات تک رسائی کو بڑھانے اور قانونی شکایات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے نظام بنائیں۔
ٹی ٹی پی کے موجودہ امیر نور ولی نے بھی اس تنظیم کی ضرب عضب کارروائی کے بعد بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نظریاتی طور پر مضبوط وہ ایک تجربہ کار شدت پسند ہیں۔ جنگی حکمت عملی، تاریخ اور شرعی قوانین پر کتابوں کے مصنف کے زیر قیادت ٹی ٹی پی حالیہ برسوں میں زیادہ مہلک دکھائی دیتی ہے۔
یو این رپورٹ مزید کہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں اپنی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرحد پار کارروائیاں کرتی ہے۔ ایسی بھی اطلاعات نوٹ کی گئیں کہ دیگر کالعدم شدت پسند گروہ افغان طالبان کے کنٹرول سے بچنے کے لیے ٹی ٹی پی کی حمایت کو ایک ذریعے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی بظاہر بحالی کے مرحلے سے آگے بڑھ کر اب قدم جمانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ایک کثیر الجہتی طریقہ کار کی ضرورت ہے جو فوجی کارروائیوں کے قدرے چھوٹے حصے کے علاوہ تنظیم کے پیغام اور اپیل کو غیر موثر بنا دے۔ معاشی ترقی پر زور دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
افغان سرحد پر واقعے ماضی میں شدت پسندی سے بری طرح متاثر قبائلی اضلاع میں جو ترقی ہونی چاہیے تھی نہیں ہوئی۔ انہیں جو معاشی مدد کا وعدہ کیا گیا تھا پورا نہیں ہوا ہے۔ انضمام کے وقت ہر سال سو ارب روپے قبائلی اضلاع کی ترقی پر خرچ کرنے کا خواب ادھورا ہے، نوکریاں بدستور ناپید ہیں اور مہنگائی کا دباؤ ناقابل برداشت۔
اب شاید وقت ہے کہ ٹی ٹی پی سے جڑی حکمت عملی اور اس پر عمل درآمد کو سویلین حکمرانوں، قبائلی رہنماؤں اور دینی علما کے حوالے کیا جائے اور وہ قانون کی حکمرانی اور عوامی ضروریات تک رسائی کو بڑھانے اور قانونی شکایات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے نظام بنائیں۔
ماسوائے تحریک انصاف کے دور میں مختصر وقت کے لیے اجتناب کے علاوہ ہم شدت پسندی کا مقابلہ گذشتہ دو دہائیوں سے فوجی ذرائع سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب اسے پارلیمان کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے جو یقیناً اصل استحکام کی وجہ بنے گی۔
نوٹ: کالم نگار انڈپینڈنٹ اردو کے مینیجنگ ایڈیٹر ہیں۔