ٹی ٹی پی کے کچھ عناصر افغانستان میں ہوسکتے ہیں: افغان سفیر

سفیر احمد شکیب کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کی آمد سے قبل بھی ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند پاکستان میں حملے کر رہے تھے اور ان کے مطابق ان میں سے زیادہ تر پاکستان میں ہیں۔

اسلام آباد میں افغان طالبان حکومت کے سفیر سردار احمد شکیب (افغان سفارت خانہ ایکس)

پاکستان میں افغان طالبان کے سفیر سردار احمد شکیب نے ایک انٹرویو میں بنوں میں حالیہ حملے پر اسلام آباد کے احتجاج کے حوالے سے کہا ہے کہ ’ہم نے جواب دیا کہ حملے عام طور پر پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ مسلح گروہ افغانستان میں موجود ہیں‘ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہو بھی سکتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کچھ عناصر افغانستان میں چھپے بھی ہوں۔

سفیر نے بی بی سی پشتو کو انٹرویو میں کہا کہ کسی بھی صورت میں افغانستان کا مؤقف ہے کہ وہ اس قسم کی کارروائیوں کی کسی کو اجازت نہیں دیتے ہیں۔

پاکستانی حکام نے بدھ کے روز کہا تھا کہ انہوں نے اسلام آباد میں افغان سفیر کے نائب کو طلب کر کے بنوں کے علاقے میں پاکستانی فوجیوں کے ایک مرکز پر حملے پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ 15 جولائی کو ہونے والے اس حملے میں آٹھ پاکستانی فوجی جان کھو بیٹھے جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بنوں پر حملہ پاکستانی طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ نے کیا تھا اور انہوں نے افغانستان کے نائب سفیر سے کہا تھا کہ طالبان حکومت افغانستان میں اس گروپ کے خلاف کارروائی کرے۔

سفیر احمد شکیب کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کی آمد سے قبل بھی ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند پاکستان میں حملے کر رہے تھے اور ان کے مطابق ان میں سے زیادہ تر پاکستان میں ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہو سکتا ہے کہ (ٹی ٹی پی کے) کچھ عناصر افغانستان میں چھپے ہوں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امارت اسلامیہ [طالبان حکومت] یا افغانستان کے لوگ ان کی حمایت کر رہے ہیں یا وہ یہاں موجود ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وہ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں اور اگر کسی کے پاس ثبوت ہیں کہ افغانستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کے خلاف لڑ رہے ہیں تو ان کی حکومت ایسے لوگوں کے خلاف اقدامات کرے گی۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق حافظ گل بہادر گروپ سمیت متعدد مسلح تنظیموں کے افغانستان میں ٹھکانے ہیں جو پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد میں طالبان کے سفیر سردار احمد شکیب کا کہنا تھا کہ انہیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے دو طرفہ مذاکرات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔

حافظ گل بہادر گروپ کون ہیں؟

معلومات کے مطابق پاکستانی طالبان کے زیادہ تر الگ ہونے والے گروپ اب تحریک طالبان پاکستان میں ضم ہو چکے ہیں لیکن کچھ گروپ اب بھی ٹی ٹی پی سے باہر الگ سرگرمیاں کر رہے ہیں جن میں حافظ گل بہادر گروپ بھی شامل ہے۔

حافظ گل بہادر نے 2001 میں ایک خصوصی مسلح گروپ تشکیل دیا جس میں ابتدائی طور پر چار ہزار مسلح افراد تھے۔

پہلے تو اس گروپ کا پاکستانی فوج یا حکومت سے زیادہ اختلاف نہیں تھا اور قبائلی علاقوں میں 2014 کے فوجی آپریشن کے بعد یہ گروپ بڑی حد تک غیر فعال ہو گیا تھا۔

اس وقت پاکستانی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے بہت سے مسلح شدت پسندوں کو ہلاک کیا ہے یا انہیں قبائلی علاقوں سے نکال دیا ہے۔

اس وقت پاکستانی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے بہت سے مسلح شدت پسندوں کو ہلاک کیا ہے یا انہیں قبائلی علاقوں سے نکال دیا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ بنوں پر حملہ پاکستانی طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ نے کیا تھا۔

تجارتی اختلافات

افغان اہلکار نے افسوس کا اظہار کیا کہ سبزیوں اور پھلوں پر ٹیرف میں اضافے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔

عام طور پر جب افغانستان سے پھلوں اور سبزیوں کی برآمد کا موسم آتا ہے تو پاکستان میں محصولات بڑھ جاتے ہیں جس سے افغان تاجروں کو کافی نقصان ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا گذشتہ سال بھی ہوا تھا لیکن پاکستانی حکام سے رابطہ کرنے کے بعد انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ ایک غلطی تھی اور بعد میں ٹیرف میں کمی کی گئی۔ تاہم جب ہم نے رواں سال پاکستانی وزارت تجارت کے سامنے محصولات میں تقریبا 1000 فیصد اضافے کا معاملہ اٹھایا تو انہوں نے اس اقدام کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے دباؤ سے منسوب کیا کیونکہ پاکستان نے متعدد ممالک خاص طور پر افغانستان کے ساتھ ٹیکس چھوٹ ختم کر دی ہے۔‘

افغان سفیر نے بتایا کہ پاکستانی حکومت کے ساتھ بات چیت میں ان کی تجویز یہ تھی کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ تجارتی اشیا کو ترجیحی تجارتی معاہدے (پی ٹی اے) میں شامل کیا جائے۔

اس سے قبل کابل کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفد نے بعض تجارتی اشیا پر باہمی ٹیکس چھوٹ پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ افغان سفارت کار کے مطابق اس معاملے کو حل کر لیا گیا ہے لیکن ابھی تک حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔

’ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں ٹیرف اپنی اصل حالت میں واپس آ جائے۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے اعلیٰ حکام بشمول معزز وزیراعظم نے کابل میں اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے ہیں اور مجھے امید ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا