لاہور میں اردو بازار کے دکانداروں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ حکومت سٹیشنری پر لگایا جانے والا جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) اگلے 10 دن میں واپس ورنہ اردو بازار کے تاجران ہڑتال اور احتجاج دونوں کریں گے۔
صدر انجمن تاجران اردو بازار اور صدر انجمن تاجران آل پاکستان خالد پرویز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے سٹیشنری آئٹمز پر 14 فیصد جی ایس ٹی عائد کر دیا ہے جو تاجران کو قابل قبول نہیں ہے۔
’اس وقت اردو بازار پہلے ہی زوال پذیر ہے لوگوں کا کاروبار نہیں ہے وہ پریشان ہیں اس پریشانی کے عالم میں ان پر سیلز ٹیکس کی ایک تلوار لٹکا دی گئی ہے۔‘
ان ن کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکس چھوٹے دکاندار، ری ٹیلرز یا ہول سیل میں سٹیشنری پر نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ یہ سکول جانے والے بچوں کی روز مرہ کی ضروریات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکس انڈسٹری پر لگے گا تو وہ آگے ہول سیل والے سے وصول کرے گا اور اس پر اپنا منافع بھی رکھے گا جس سے مزید قیمت بڑھ گئی پھر ہول سیلر ریٹیلر کو مہنگا کر کے دے گا۔
’ریٹلیر جب اسے بیچے گا تو یہ سارا ٹیکس اس بچے کو ادا کرنا پڑے گا جو پہلے ہی خرید نہیں سکتا جو زمین پر بیٹھا ہے، یہ ٹیکس غریب والدین اور طالب علموں پر بوجھ بنے گا اور اس ٹیکس سے تعلیم کے دروازے بند ہونے کا مزید امکان بڑھ جائے گا۔‘
لاہور اردو بازار کتابوں، کاغذ اور سٹیشنری آئٹمز کے لیے مشہور ہے۔ یہاں سٹیشنری کی ایک بہت بڑی ہول سیل مارکیٹ ہے لیکن آج کل وہاں کام اس طرح نہیں چل رہا جیسے ہوا کرتا تھا۔
دکان داروں کا کہنا تھا کہ نیا جنرل سیلز ٹیکس لگنے کے بعد انہیں انڈسٹری سے سٹیشنری مہنگے داموں مل رہی ہے۔
فیصل محمود اردو بازار میں سٹیشنری کے ہول سیلر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پینسل، ربر، شارپنر، مارکر، کلر پینسل یہ ایک بچے کو روز لینی ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ روزانہ ٹیکس دے گا۔‘
فیصل کے خیال میں اس ٹیکس میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو انہیں سمجھ نہیں آرہی جیسے گم سٹک، فلوئیڈ پین یا فائلز وغیرہ جو آفس سٹیشنری میں آتی ہیں ان پر ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’غریب بچہ پہلے ہی پڑھائی سے دور ہوتا جارہا ہے مہنگائی کی وجہ سے بہت سے بچے بنیادی سٹیشنری روز لیتے ہیں جو دن بہ دن مہنگی ہوتی جا رہی ہیں تو یہ ہمیں بتایا جائے کہ بچے کیسے اپنی پڑھائی کو جاری رکھ سکیں گے اس لیے میرے خیال میں حکومت اس پر کام کرے، ہوش کے ناخن لے اور بہتری کے لیے سوچے۔‘
مزمل بھی اردو بازار میں سٹیشنری کا ہول سیل کا کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’حکومت نے جو ٹیکس لگایا ہے اس کے بعد سے گاہک آتے ہیں وہ سٹیشنری آئٹمز کی قیمتیں دیکھ کر واپس چلے جاتے ہیں کیوں کہ یہ چیزیں اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ قوت خرید ختم ہو گئی ہے۔‘
مزمل نے بتایا: ’پہلے ریٹیل میں ایک پینسل 15 یا 20 روپے کی بکتی تھی وہی پینسل اب 30 روپے کی ہو گئی ہے۔ پہلے حالات خراب تھے اور حکومت نے 14 فیصد مزید ٹیکس لگا دیا ہے اس وقت مارکیٹ کچھ کام نہیں ہو رہا۔‘
مزمل نے سٹیشنری کے ریٹس بتاتے ہوئے 12 پینسلوں کے ایک پیکٹ کی قیمت کے حوالے سے بتایا ’پہلے اس پیکٹ کی قیمت ہول سیل میں 160 روپے تھی جس کا کم از کم ریٹ اب 180 روپے ہو گیا ہے۔ اب یہ سوچیں کہ میں آگے ریٹیلر کو یہ کتنے میں بیچوں گا اور وہ آگے ایک بچے کو یہ کتنے میں بیچے گا؟‘
سٹیشنری ریٹیل میں فروخت کرنے والے اظہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے جو جی ایس ٹی لگایا ہے اس سے سٹیشنری مزید مہنگی ہو جائے گی۔‘
اظہر کا کہنا تھا کہ ’ابھی مارکیٹ میں گاہک نہیں ہے کیوں کہ ابھی بچوں کی چھٹیاں چل رہی ہیں لیکن اب جب سکول کھلیں گے تو اس سے پہلے سٹیشنری کی خرید و فروخت کا کام زیادہ ہو جاتا ہے اور ریٹیلرز کے لیے قیمت کو مناسب رکھنا مشکل ہو جائے گا اور بچوں کے لیے پڑھائی ایک خواب بن جائے گا۔‘