اسرائیلی وزیراعظم کا امریکی کانگریس سے خطاب مظاہروں اور بائیکاٹ کی نذر

ہزاروں افراد اس وقت تک تن یاہو کے خلاف اور عالمی عدالت کے فیصلے کے تحت ان کی گرفتاری کا نعرہ لگاتے رہے، جب تک اسرائیلی وزیراعظم نے 100 کے قریب کانگریس مین اور نائب امریکی صدر کملا ہیرس کے بائیکاٹ کے باجود اپنا خطاب مکمل نہیں کر لیا۔

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کا امریکی کانگریس سے خطاب کانگریس کے کئی ارکان کے بائیکاٹ اور فلسطین حامی مظاہروں کی نذر ہو گیا۔

وزیراعظم نتن یاہو اپنے انتہائی متنازع دورے پر پیر کو امریکی دارالحکومت پہنچے، جہاں انہیں اسرائیلی حکومت کی غزہ میں جاری جارحیت کے تناظر میں روزانہ مظاہروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے ان کا یہ چوتھا خطاب تھا۔

اس سے قبل دوسری عالمی جنگ کے دوران بطور برطانوی وزیراعظم شہرت کمانے والے ونسٹن چرچل ہی ایسے واحد غیر ملکی سیاست دان تھے، جنہیں امریکی کانگریس سے تین بار خطاب کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

24 جولائی 2024 سے ایک دن پہلے ہی کیپیٹل ہل کو جانے والے اکثر راستے بند کر دیے گئے تھے۔ اسی لیے جب مظاہرین 24 تاریخ کی صبح فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے کے لیے پہنچے تو کیپیٹل ہل کو اونچے جالی دار جنگلوں اور رکاوٹیں لگا کر بلاک کر دیا گیا تھا اور مظاہرے سے خطاب کرنے والے افراد کے پیچھے پولیس کی لمبی قطاریں لگی تھیں۔

واشنگٹن ڈی سی کے رہائشی رونلڈ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ نہ صرف نتن یاہو کا کانگرس سے خطاب کرنا ان کے لیے پریشان کن تھا بلکہ وہ اس بات پر حیران تھے کہ اسرائیلی وزیراعظم جو کہ امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد کے مطابق فلسطین میں نسل کشی کے مرتکب ہیں، ان کی حفاظت کے لیے نیو یارک سے سینکڑوں کی تعداد میں پولیس اہلکار یہاں لائے گئے ہیں۔

پُر امن مظاہرہ جب مارچ میں بدلا اور مظاہرین نے کیپیٹل ہل کی جانب چلنا شروع کیا تو پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روکا لیکن مظاہرین کے نہ رکنے پر آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا، جبکہ کچھ افراد پولیس کی جانب سے کیے گئے پیپر سپرے کی زد میں بھی آئے۔

ہزاروں کی تعداد میں مظاہرہ کرنے والے افراد میں سے چار امریکی شہریوں کو نقص امن کے الزام میں گرفتار بھی کر لیا گیا، البتہ مظاہرہ جاری رہا۔

مظاہرے کا اہتمام 20 سے زائد تنظیموں نے کیا تھا جن میں امریکن مسلمز برائے فلسطین، فلسطین یوتھ موومنٹ، یو ایس فلسطینی کمیونٹی، کووڈ پنک، رائٹرز اگینسٹ وار، جیوز فار پیس اور بین الاقوامی صہونیت مخالف نیٹ ورک شامل ہیں جب کہ مظاہرے سے خطاب کرنے کے لیے معروف امریکی اداکارہ سوزن سرینڈن بھی موقعے پر موجود تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں امن کے بغیر دنیا بھر میں امن قائم کرنا ناممکن ہے۔

مظاہرے میں شریک ایک خاتون سیلینا میئرز کا کہنا تھا کہ وہ فلسطین میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی چاہتی ہیں اور اسی لیے وہ مظاہرے میں شرکت کے لیے پنسلوینیا سے آئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور یہودی یہی سمجھتی ہیں کہ امریکی حکومت کو اسرائیلی حکومت کو دی جانے والی ہر قسم کی جنگی امداد فوری طور پر روکنی چاہیے کیونکہ یہ اسلحہ معصوم فلسطینی بچوں کے قتل عام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

مظاہرے میں شریک پاکستانی نژاد امریکی زاہد صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ امریکی ریاست کنیکٹیکٹ سے صرف مظاہرے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان حالات میں نتن یاہو کو امریکہ مدعو کرنا انسانی ہمدردی رکھنے والے افراد کے لیے بہت مایوس کن ہے۔ جنگ بندی تک مظاہرے جاری رکھے جائیں گے۔‘

مظاہرے میں وزیراعظم نتن یاہو کے بڑے بڑے کٹ آؤٹس بھی لگائے گئے تھے، جن کے سامنے فلسطینی شہریوں کے علامتی تابوت رکھے گئے تھے۔

اسی مجمعے میں وہ یہودی گروپ بھی فلسطین کے حق میں پوسٹرز لیے کھڑے تھے جو اسرائیلی حکومت کے سخت مخالف سمجھے جاتے ہیں۔

مجموعی طور پر کانگریس میں موجودگی کے دوران نتن یاہو کی پزیرائی کی گئی لیکن بہت سے کانگریس مین خطاب میں شریک نہیں ہوئے۔ تن یاہو نے اپنی تقریر میں احتجاج کرنے والوں کو اپنے کردار پر شرمسار ہونے کا  مشورہ بھی دیا، جس پر انہیں بعد میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

ہزاروں افراد اس وقت تک تن یاہو کے خلاف اور عالمی عدالت کے فیصلے کے تحت ان کی گرفتاری کا نعرہ لگاتے رہے، جب تک اسرائیلی وزیراعظم نے 100 کے قریب کانگریس مین اور نائب امریکی صدر کملا ہیرس کے بائیکاٹ کے باجود اپنا خطاب مکمل نہیں کر لیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ