صوبے خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم ایجنسی میں دو گروہوں کے درمیان تنازعہ مشین گنوں اور مارٹروں تک پھیل گیا جس میں اب تک مارے جانے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 42 ہو گئی ہے۔
مقامی پولیس اہلکار مرتضیٰ حسین نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’مداگی اور مالی خیل قبائل کے درمیان مسلح جھڑپیں بدھ کو شروع ہوئی تھیں۔‘
مرتضیٰ حسین کے مطابق: ’ابتدائی طور پر یہ زمین کا تنازع تھا لیکن اب یہ معاملہ فرقہ وارانہ تشدد میں تبدیل ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت اور مقامی رہنما جرگوں کے ذریعے لڑائی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک مکمل کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔‘
صوبائی وزارت داخلہ کے ایک اعلی افسر نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 42 اموات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس تنازع میں 183 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اس سے قبل صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کی پولیس اور جرگے کے رکن کا اتوار کو کہنا تھا کہ علاقے میں پانچ روز سے جاری جھڑپوں کے بعد متحارب قبائل نے فائر بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔
ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہاراللہ خان کو بتایا تھا کہ ’جرگے کی کوششوں سے فائر بندی پر اتفاق ہوا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’تنازعے کی جگہوں پر 70 فیصد سے زائد بنکرز خالی کرائے گئے ہیں اور پولیس، ایف سی اور فوج نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔‘
اپر کرم کے علاقے، بوشہرہ اور ملی خیل کے مابین اس زمینی تنازعے کا مرکزی علاقہ رہے ہیں اور پولیس کے مطابق گذشتہ چار دنوں میں کم از کم 28 افراد جان سے گئے ہیں جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے۔
اس بارے میں کرم سے سابق رکن قومی اسمبلی اور جرگے کے رکن ملک فخر زمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ’جرگے کی کوششوں سے فائر بندی پر اتفاق ہوا ہے اور بوشہرہ علاقے میں مورچے سکیورٹی فورسز کے حوالے کیے گئے ہیں جبکہ مخالف فریق بھی مورچے فورسز کے حوالے کریں گے۔‘
فخر زمان نے بتایا کہ ‘اب بھی کچھ جگہوں پر معمولی مسائل موجود ہیں لیکن مجموعی طور پر فائربندی کا اعلان کیا گیا ہے اور پولیس کی مدد سے مورچے عوام سے خالی کرائے جا رہے ہیں۔‘
ضلع کرم کے مقامی صحافی ریحان محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حالیہ جھڑپوں کا آغاز بوشہرہ اور ملی خیل گاؤں کے مابین شروع ہوا اور پھر مختلف علاقوں تک پھیل گیا۔‘
ریحان محمد نے بتایا کہ ‘جب بھی اس طرح تنازع ہوتا ہے تو پہلے بوشہرہ اور ملی خیل اور بعد میں جھگڑا دیگر علاقوں تک پھیل جاتا ہے اور جھگڑا شروع زمینی تنازع سے ہوتا ہے۔‘
خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کی سرحد پر واقع ہے جہاں مقامی حکام اور سیاست دانوں کے مطابق دو خاندانوں کے درمیان زمین کا تنازع قبائل کے درمیان مسلح جھڑپوں کی وجہ بن گیا۔
اس سے قبل ضلع کرم میں 2007 میں شروع ہونے والا ایک بڑا تنازع کئی سالوں تک جاری رہا تھا اور 2011 میں قبائلی عمائدین کی جرگے کی مدد سے اسے ختم کر دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حالیہ دنوں میں ایک زمینی تنازعے پر تازہ ترین یہ جھڑپیں پانچ دن پہلے شروع ہوئی تھیں اور تیزی سے کئی دیہات اور آس پاس کی بستیوں میں پھیل گئیں۔
علاقے کے زیادہ تر دیہاتوں کو خوراک اور زندگی بچانے والی ادویات کی قلت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جھڑپوں اور حکام کی طرف سے بدامنی پر قابو پانے کے لیے سڑکوں کی بندش کی وجہ سے لوگوں کو مسائل کا سامنا تھا۔
ان جھڑپوں کے دوران متحارب فریقوں نے ایک دوسرے پر چھوٹے اور بھاری ہتھیاروں سے حملے کیے۔
حالیہ جھڑپوں کی وجہ سے ضلع بھر میں انٹرنیٹ کو بھی بند کردیا گیا تھا جس سے عوام کو انٹرنیٹ تک رسائی میں مشکلات درپیش تھیں۔
گذشتہ سال بھی انہی علاقوں میں شدید جھڑپیں ہوئی تھیں جن میں کم از کم 10 افراد جان سے گئے تھے جس کے بعد جرگے کی کوششوں سے فائربندی پر اتفاق کیا گیا تھا۔
جبکہ گذشتہ سال ہی محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے کرم کے زمینی تنازعات پر ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ضلع کرم میں آٹھ مقامات پر زمینی تنازعات ہیں اور یہ تنازعات نئے نہیں بلکہ تقسیم ہند کے وقت سے موجود ہیں۔
ان تنازعات کے حل کے لیے ایک حکومتی کمیشن بھی بنایا گیا ہے لیکن علاقہ مکینوں کے مطابق کمیشن تنازعات کے حل میں سنجیدہ نہیں ہے اور آئے روز اس طرح کی جھڑپیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔