ضلع کرم میں کشیدگی: خوراک کی ترسیل مشکل، انٹرنیٹ بند

ضلع کرم کے ایک مقامی صحافی نے بتایا کہ اپر اور لوئر کرم میں فریقین کے درمیان مسلح تصادم کے باعث کئی سڑکیں بند ہیں جس کی وجہ سے سبزیوں، پھلوں اور غلے سے بھرے ٹرک داخل نہیں ہو پا رہے۔

22 جنوری، 2017 کو کرم قبائلی ضلع کے صدر مقام پاراچنار میں ایک چوکی کا منظر (اے ایف پی) 

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں ایک مرتبہ پھر امن و امان کی صورت حال گمبھیر ہونے کی وجہ سے رہائشی مشکلات کا شکار ہیں، جب کہ سکیورٹی وجوہات کے بنا پر علاقے میں انٹرنیٹ سروس بھی بند ہے۔ 

پولیس کے مطابق گذشتہ روز لوئر کرم کے علاقے مندوری میں پولیس کارواں میں شامل مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے نتیجے میں چار افراد مارے گئے۔ 

ضلعی پولیس کنٹرول روم کے اہلکار یعقوب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چار گاڑیاں کرم کے علاقے پاڑا چنار جا رہی تھیں جب انہیں فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔

یعقوب نے بتایا کہ فائرنگ کر کے مختلف گاڑیوں میں سوار چار مسافروں کو قتل کر دیا گیا جب کہ پولیس اہلکار حملے میں محفوظ رہے۔

کرم گذشتہ چند ماہ سے تنازعات کا شکار رہا ہے اور اس دوران زمین کے تنازع پر تقریباً 10 افراد زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

پولیس اور علاقے کے لوگوں کے مطابق کرم میں زمین سے متعلق تنازعات بعد ازاں فرقہ واریت کا رنگ دھار لیتے ہیں۔

ایسے ہی ایک تنازع کے سلسلے میں جولائی میں دو فریقین کے مابین جرگہ منعقد ہوا اور ایک سال کے لیے تیگہ (پشتو میں تیگہ پتھر کو کہتے ہیں، جبکہ قبائلی روایات کے مطابق یہ فائر بندی کا معاہدہ ہے) رکھا گیا تھا۔ 

معاہدے کے مطابق معاہدے کی ضرورت ایک زمینی تنازعے کی فرقہ وارانہ شکل اختیار کرنے کے بعد پیش آئی۔

معاہدے میں واضح کیا گیا کہ ضلع میں تمام راستے عوامی سہولت غرض سے کھلے رہیں گے اور حالات خراب کرنے کی کسی بھی کوشش کی صورت میں علاقے کے لوگ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ تعاون کریں گے۔ 

جرگے نے معاہدے کی کسی شق کی خلاف ورزی کی صورت میں 12 کروڑ روپے جرمانے کا فیصلہ بھی کیا۔ 

ضلع لوئر کرم کے صحافی ریحان محمد نے علاقے کی موجودہ صورت حال سے متعلق انڈپیندنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ یہ تنازع تقریباً 10  دن پہلے تب شروع ہوا جب ایک فریق نے دوسرے پر گستاخانہ تقریر اور مواد سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا الزام لگایا تھا۔ 

ریحان محمد کے مطابق کچھ مظاہرے اور دھرنے ہوئے جس سے مسئلہ بگڑتا چلا گیا۔

ریحان محمد کا کہنا تھا کہ ابھی یہ مسئلہ چل رہا تھا کہ کرم کے مختلف علاقوں اور حتیٰ کہ پشاور میں فائرنگ کے تقریباً آدھا درجن واقعات ہوئے جن میں کئی افراد جان سے مارے گئے اور دوسرے زخمی ہوئے۔

عام آدمی کی مشکلات

امن و امان کی ناقص صورت حال کی وجہ سے ریحان محمد کے مطابق خوف اور ڈر موجود ہے اور مرزکی شاہراہ ٹل پاڑا چنار سڑک کو بند کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے سبزیاں اور راشن لانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں خود ابھی باہر کے حالات دیکھ چکا ہوں اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں کھڑی ہیں جن میں پھل، سبزیاں اور دوسرا راشن موجود ہے لیکن روڈ بند ہونے کی وجہ سے وہ مارکیٹوں میں نہیں جا سکتیں۔‘ 

ریحان محمد نے بتایا کہ انٹرنیٹ بھی مکمل طور پر بند ہے اور عام آدمی کو رابطہ قائم کرنے میں مشکلات ہیں جبکہ بعض علاقوں میں بچے بھی روڈ بند ہونے اور خراب حالات کی وجہ سے سکول نہیں جا پا رہے ہیں۔ 

اس صورت حال پر پولیس کا موقف جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے کرم کے پولیس کنٹرول کے اہلکار کمال سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ حالات خراب ہیں اور ابھی اپر کرم میں بوشہرا اور مالی خیل جبکہ لوئر کرم میں صدہ اور بالش خیل گاؤں کے مابین جھگڑے جاری ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ فریقین کے مابین تنازعے کو روکنے کے لیے ابھی تک جرگے ناکام ہوئے ہیں لیکن اس حوالے سے کوششیں جاری ہے، جب کہ مرکزی سڑکیں بند ہیں اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ضلع کرم کے پولیس سربراہ محمد عمران اور ڈپٹی کمشنر سیف الاسلام کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان