آج دوستی کا عالمی دن ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی 2011 سے افراد، ثقافتوں اور قوموں کے درمیان امن اور خوشحالی کو فروغ دینے میں دوستی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے یہ دن منا رہی ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
مجھے دوستی کے اس عالمی دن کے موقعے پر اپنے تمام دوست اور سہیلیاں یاد آ رہی ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسوں کی ہے جو کچھ عرصے بعد میرے فون یا سوشل میڈیا کا بس ایک اکاؤنٹ بن کر رہ گئے تھے۔
کسی کی شادی ہو گئی تو کوئی ملک سے باہر چلا گیا تو کوئی زندگی کی الجھنوں میں کھو گیا۔ کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر دفعہ ایک جیسا جواب موصول ہوا۔
میں نے بہت سال انہیں اسی طرح اپنی زندگی میں رکھا لیکن جب احساس ہوا کہ وہ جا چکے ہیں تو انہیں ایک ایک کر کے اپنے فون اور سوشل میڈیا سے ڈیلیٹ کر دیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ کسی کے پیچھے بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جس نے آپ کے ساتھ رہنا ہوتا ہے وہ ہر حال میں آپ کے ساتھ رہتا ہے، آپ کو اسے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے محنت نہیں کرنی پڑتی۔ جو آپ کے دوست نہیں رہنا چاہتے انہیں خدا حافظ کہنا ہی بہتر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو اپنی دوستیوں اور رشتوں کی قدر کرتے ہیں۔ مجھے بھی وقت نے بہت اچھے دوست دیے جو محدود رابطوں کے باوجود میرے اور میرے خاندان کے ساتھ تعلق میں رہے۔ جب بھی بات ہوئی انہوں نے بہت خوشی سے بات کی۔ نہ کبھی کوئی شکایت کی نہ کبھی کوئی گلہ کیا۔ ان کے ساتھ دوستی بہت آسان رہی اور آج تک قائم ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مرد اور عورت کبھی دوست نہیں بن سکتے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر وہ ایک دوسرے کے دوست بننا چاہتے ہیں تو بن سکتے ہیں۔ درمیان میں کسی کی بھی نیت کھوٹی ہو یا شروع سے ہی کھوٹی ہو تو وہ نظر آ جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے مرد اور عورت کی دوستی کو ناممکن قرار دینا غلط ہے۔
میری کبھی بھی خواتین سے اچھی دوستی نہیں رہی یا اگر رہی بھی تو وہ زیادہ عرصہ چل نہیں سکی۔ عموماً خواتین رشتہ طے پاتے ہی اپنے ’اُن‘ کو پیاری ہو جاتی ہیں اور اپنے اگلے پچھلوں کو بھول جاتی ہیں۔
میری زیادہ تر سہیلیوں کے ساتھ کچھ ایسے ہی ہوا۔ جیسے ہی میری ان کے ساتھ دوستی پکی ہوتی ان کی شادی ہو جاتی تھی اور پھر وہ غائب ہو جاتی تھیں۔
کچھ سال پہلے میری ایک سکول کی پکی سہیلی نے سوشل میڈیا کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا۔ اس نے میری ایک ویڈیو دیکھ کر مجھے پہچانا تھا۔
اس سے پہلے میں اسے کئی بار سوشل میڈیا پر ڈھونڈ چکی تھی۔ پر غالباً اس نے وہاں اپنا نام بدل لیا تھا یا ڈسپلے پکچر میں اپنی تصویر کی جگہ کسی پھول، پتے یا بچے کی تصویر لگا لی تھی۔
بات چیت ہوئی تو علم ہوا کہ اس کے پچھلے 10 سال بہت برے گزرے تھے۔ اس کے شوہر اچھے خاصے روایتی ثابت ہوئے۔ کچھ ہی سالوں میں دونوں کو ایک دوسرے سے نفرت ہو گئی تھی، لیکن بچوں اور خاندان کی وجہ سے ساتھ رہ رہے تھے۔
دوستوں سے ہم وہ باتیں کر سکتے ہیں جو اپنے گھر والوں سے بھی نہیں کر سکتے۔
ہماری کچھ دن بات چیت رہی، پھر دوبارہ رابطہ منقطع ہو گیا۔ ایک دفعہ کسی رشتے میں فاصلہ آ جائے تو وہ ختم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف میری مردوں سے کافی اچھی دوستی رہی۔ گرچہ ان میں سے بھی کچھ بہت سالوں کی دوستی کے بعد اچانک غائب ہو گئے، لیکن بہت سے ایسے بھی رہے جو میرے علاوہ میرے گھر والوں کے بھی دوست بن گئے۔
اس سال میرے دو دوست عید پر ہمارے گھر آئے تو ہم نے بہت سالوں بعد ایک روایتی انداز کی عید منائی۔ خوب کھانے پکے، باتیں ہوئیں، قہقہے لگے، عیدیوں کا تبادلہ ہوا اور پرانی یادیں دہرانے کے ساتھ ساتھ نئی یادیں بھی بنائی گئیں۔
انسانی زندگی چھوٹی سی ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو جاتی ہے۔ اسے بھرپور طریقے سے جینے کے لیے اچھے دوستوں کا ساتھ بہت ضروری ہے۔
میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں بہت سے اچھے دوست ملے۔ کچھ ایسے جن سے میں کسی بھی وقت رابطہ کر کے اپنے دل کی بات کر سکتی ہوں۔ وہ میری بات سن لیتے ہیں۔ میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے اور میں اگلا دن ایک نئی توانائی کے ساتھ شروع کر پاتی ہوں۔
دوست اسی لیے ہوتے ہیں۔ ان سے ہم وہ باتیں کر سکتے ہیں جو اپنے گھر والوں سے بھی نہیں کر سکتے۔
اگر آپ کی زندگی میں ایسے دوست ہیں تو ان کی قدر کریں اور انہیں خود سے دور نہ کریں۔ یہ زندگی مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ مشکل بھی ہے۔ ہمارا مشکل وقت ایسے دوستوں کے سہارے ہی کٹتا ہے۔
میں دوستی کے اس عالمی دن کے موقعے پر اپنے ایسے تمام دوستوں کا دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔