اسلام آباد سے ہنزہ کا سفر: ایک سیاح کے تاثرات

حالیہ برسوں میں مقامی سیاحت میں بےپناہ اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ذمہ داری کا احساس پیدا نہیں ہوا جو قدرتی حسن کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان میں قدرتی نظاروں کی کمی نہیں مگر سیاحوں کے لیے سہولت کی سخت کمی ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

میں نے حال ہی میں اپنی فیملی کے ساتھ ہنزہ کا ایک طویل سفر کیا۔ یہ میرا ایک طویل عرصے کے بعد سڑک کا پہلا سفر تھا اور میں نے ہر لمحے کا لطف اٹھایا۔

ہمارا سفر اسلام آباد سے شروع ہوا۔ اسلام آباد کی گرمی سے نکل کر کاغان اور ناران کے راستے کا موسم بہت خوشگوار تھا۔ سکولوں کی چھٹیوں کی وجہ سے پاکستان کے مختلف شہروں سے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد ان جگہوں پر نظر آئی۔ خاص طور پر بابوسر ٹاپ تک سیاحوں کا بہت رش تھا، لیکن وہاں سے آگے سیاحوں کی تعداد کم ہونا شروع ہو گئی۔

اس پورے سفر میں پانی کے آس پاس والی جگہوں پر زیادہ رش نظر آیا۔ اس سفر کے دوران جو میں نے دیکھا اور محسوس کیا، وہ میں یہاں بیان کرنا چاہتی ہوں۔

کاغان اور ناران کے راستے

جب ہم کاغان اور ناران کے راستے سفر کر رہے تھے تو یہ صاف ظاہر تھا کہ سیاحت کا سیزن اپنے عروج پر ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے سیاح یہاں کا رخ کر رہے تھے، جس کی وجہ سے ٹریفک اور ہوٹل مکمل طور پر بھرے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں اور رہائشی جگہوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں۔

کاغان، ناران، اور بابوسر ٹاپ پر گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر گاڑیاں کھڑی تھیں، جس سے ٹریفک کی روانی میں مسائل آ رہے تھے۔ بہت سے سیاح ان سڑکوں پر تیز رفتاری سے گاڑیاں چلا رہے تھے، جو ان سڑکوں کے لیے موزوں نہیں تھیں، جس کی وجہ سے ان دنوں میں بہت سے حادثات بھی ہوئے۔

اس کے علاوہ اکثر کاریں سڑک کے بیچ میں کھڑی ہو جاتی تھیں، جس سے ٹریفک کا مسئلہ بڑھ جاتا تھا۔ کاغان ناران روڈ کی حالت بھی کافی خراب تھی، جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی تھی۔

ہوٹل انڈسٹری کا پھیلاؤ

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے ہوٹل انڈسٹری بھی پھیل رہی ہے۔ کاغان، ناران اور بابوسر ٹاپ پر آپ کو بہت سے ہوٹل نظر آئیں گے، جبکہ کچھ ہوٹل ابھی تعمیر کے مراحل میں ہیں، مگر ان عمارتوں کی تعمیر میں ماحولیات کے اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ، وہاں مناسب پارکنگ کا خیال بھی نہیں رکھا گیا۔ اتنے لمبے سفر میں واش روم کی ضرورت ہر کسی کو محسوس ہوتی ہے مگر ان کا حال دیکھ کر انسان کا دل ہی نہیں کرتا کہ انہیں استعمال کیا جائے کیونکہ راستے اور ان ہوٹلوں میں موجود پبلک واش رومز میں بالکل بھی صفائی نہیں تھی، حالانکہ واش رومز استعمال کرنے کے پیسے بھی لیے جا رہے ہیں۔ ہوٹل مالکان کو صفائی کے لیے بھی کچھ پیسے خرچ کرنے چاہییں۔

سیاحت میں اضافہ اور اس کے چیلنج

حالیہ برسوں میں گلگت بلتستان میں سیاحت میں بہت اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں سے لوگ یہاں آ کر کاروبار کر رہے ہیں۔ خاص طور پر عطا آباد جھیل کے بننے کے بعد اس جگہ بہت سے ہوٹل بن گئے ہیں اور پانی کی وجہ سے یہاں پانی کی سیاحت عروج پر ہے۔

مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں بھی غیر منظم کاروبار اور سیاحوں کے غیر ذمہ دارانہ رویے اس جگہ کی خوبصورتی کو خراب کر رہے ہیں۔ دوسری جانب وادی ہنزہ، جو اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی، اب یہاں بھی بلند و بالا عمارتیں آنے والوں کا استقبال کرتی نظر آتی ہیں۔

اگر مستقبل میں یہ سلسلہ نہ روکا گیا، تو ہنزہ کا بچی کھچی قدرتی حسن بھی ماند پڑ جائے گا۔

 

سیاحوں کے رویے اور ماحولیات

ایک بڑا مسئلہ بعض سیاحوں کے غلط رویے کا ہے، جس کی شکایت مقامی لوگوں کی طرف سے کی جاتی رہی ہے۔ گلگت بلتستان جانے والے سیاح وہاں کی ثقافتی اقدار کا خیال نہیں رکھتے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں۔ حالیہ دنوں میں، گلگت بلتستان کی خواتین کے وٹس ایپ گروپ میں ایک پریشان کن واقعے کا علم ہوا۔

ایک خاتون نے بتایا کہ سوست سے گلمت جاتے ہوئے کچھ سیاحوں نے حسینی اور پسو کے درمیان واقع سڑک کے بیچ میں بیٹھ کر راستہ روکا ہوا تھا۔ جب ایک ڈرائیور نے ان سے سڑک سے ہٹنے کے لیے کہا تو سیاحوں نے توہین آمیز زبان استعمال کی، اپنی گاڑی لے کر ان کی گاڑی کا پیچھا کیا اور بعد میں گاڑی پر پتھراؤ کیا اور گاڑی میں سوار لوگوں کو ہراساں کیا گیا۔

اس کے علاوہ ایک مثال وہ ویڈیو ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں ایک سیاح کو گلگت میں چیری کھانے کے لیے درخت کی شاخ کو ہی کاٹتے ہوئے دکھایا گیا، جس پر لوگ تنقید بھی کر رہے ہیں۔ اس طرح کے رویے ناقابل قبول ہیں۔

 سیاحوں کو اپنے رویے درست کرنے چاہییں، نہ کہ مسائل کا باعث بنیں۔ اس سے قبل بھی سیاحوں کی جانب سے مقامی خواتین کو ہراساں کرنے اور غیر مناسب رویہ اختیار کرنے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔

ماحولیات اور مقامی ثقافت کا تحفظ

گلگت بلتستان کی خوبصورتی دیکھنے کے لیے غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ یہ سیاح نہ صرف یہاں کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں بلکہ ثقافت اور روایات کی بھی پاسداری کرتے ہیں۔

اس کے برعکس، ملکی سیاحوں کی آمد کے ساتھ ایک اور بڑا مسئلہ کچرے کی آلودگی کا پیدا ہوا ہے۔ گلگت بلتستان کے خوبصورت مناظر سیاحوں کے چھوڑے ہوئے کچرے سے خراب ہو رہے ہیں۔ سیاحت کی صنعت کے بڑھتے اثرات کے ساتھ، اس علاقے میں غیر ذمہ دارانہ کچرا پھینکنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ سیاح یہاں کی ثقافتی اقدار کا بھی خیال نہیں رکھتے۔

ماحولیاتی اقدامات

مقامی حکومتوں اور سیاحتی اداروں کو ماحولیاتی قوانین کی سختی سے پابندی کروانی چاہیے۔

سیاحوں کو مقامی حکام کی ہدایات پر عمل کرنے اور کچرا صحیح طریقے سے پھینکنے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔

اسی طرح سیاحوں کو مقامی ثقافت اور روایات کا احترام کرنے کی بھی ہدایت دی جانی چاہیے اور جو سیاح اس بات کا خیال نہیں رکھتے، ان کی ان علاقوں میں آمد پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔

یہ بات درست ہے کہ سیاحت کسی بھی علاقے کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن یہ ذمہ داری کے ساتھ ہونی چاہیے۔ گلگت بلتستان اور دیگر سیاحتی مقامات پر جانے والے سیاحوں کو مقامی ثقافت کا احترام کرنا چاہیے، سیاحت کی اخلاقیات پر عمل کرنا چاہیے اور ماحول کی حفاظت کرنی چاہیے۔

اس طرح ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ یہ خوبصورت علاقے مستقبل میں بھی پرکشش اور لطف اندوز رہیں۔ آئیے ہم ذمہ دار مسافر بننے کی کوشش کریں جو ان مقامات کی خوبصورتی کا احترام اور حفاظت کرتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ