حکومت پاکستان نے سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ایک اور قدم اٹھایا ہے اور یہ قدم بھی اس سے پہلے کیے گئے اقدامات کی طرح محض قدم ہی ہے اور شاید ہی اس سے سیاحت کی فروغ میں کوئی فرق پڑے۔
حکومت نے 126 ممالک کے لوگوں کے لیے سیاحتی اور کاروباری ویزہ کی فیس ختم کر دی ہے اور امید کر رہی ہے کہ اس ویزہ فیس ختم ہونے سے سیاح پاکستان کا رخ کرنا شروع کر دیں گے اور کاروباری اشخاص جن کو انویسٹرز کہا جاتا ہے وہ بھی پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے اور ملک میں سرمایہ کاری کریں گے۔
یہ ایک ایسا قدم ہے جس کو پوری طرح سوچ سمجھ کر نہیں لیا گیا۔ کیا سرمایہ کار ملک میں انویسٹمنٹ اس لیے نہیں کر رہے تھے کہ ان کو ویزہ کی فیس بہت زیادہ لگ رہی تھی؟
دوسری جانب سیاحوں کے لیے ایک قدم اٹھایا گیا اور وہ تھا خیبر پختونخوا کے علاقے چترال میں۔ چترال میں ہیلی کاپٹر سروس کا آغاز کیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ سیاحت نے چترال کے سیاحتی مقامات کی سیر کے لیے ہیلی کاپٹر سروس متعارف کرائی مگر کرایہ زیادہ ہونے کی وجہ سے پہلی پرواز کے لیے بکنگ مکمل نہ ہو سکی۔
محکمہ سیاحت نے چترال میں سفاری ہیلی سروس کے لیے نجی ایوی ایشن کمپنی سے معاہدہ کیا جس نے سیاحوں کے لیے چار مختلف کرایوں کے ساتھ سفاری پیکج متعارف کیے۔
چترال میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیاحت کے لیے کم سے کم کرایہ دو لاکھ روپے مقرر کیا گیا جبکہ سب سے زیادہ کرایہ شندور کی سیر کا مقرر کیا گیا جو سات لاکھ 35 ہزار روپے ہے۔ اس سفر کا دورانیہ 90 منٹ کا ہے۔
محکمہ سیاحت نے گذشتہ ماہ 10 جون سے سفاری ہیلی کاپٹر سروس کے لیے بکنگ کا اعلان کیا مگر ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود کسی سیاح نے سیر کے لیے ہیلی سروس کا استعمال نہیں کیا جس کی بڑی وجہ مقرر کردہ کرائے ہیں۔
زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے بس گوگل پر جائیں اور معلوم کر لیں کہ مختلف ممالک میں 90 منٹ کا ہیلی کاپٹر کا سفر کتنے کا ہوتا ہے۔
ہوائی کے علاقے کوائی میں 90 منٹ کی ہیلی کاپٹر کا سفر 500 ڈالر میں ہے جو پاکستانی روپوں میں ایک لاکھ چالیس ہزار بنتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں گرینڈ کینیئن کی ہیلی کاپٹر رائیڈ 300 ڈالر سے شروع ہوتی ہے اور حد 550 ڈالر ہے اور یہ سفر 50 منٹ سے ایک گھنٹے سے زیادہ کا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اندرونی اور بیرونی سیاحت کسی بھی ملک کے لیے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہوتا ہے اور یہ ہی حال پاکستان کا بھی ہے۔
حکومت نے سیاحت پر توجہ مرکوز کی اور ایک طرف جہاں سڑکوں کے نیٹ ورک کو توسیع دی گئی تو دوسری جانب نئے مقامات کی نشاندہی کے ساتھ دیگر کئی اہم اقدامات بھی کیے۔
لیکن اب بھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ اس میں وقت درکار ہوتا ہے لیکن کچھ اقدامات ایسے بھی ہیں جن میں وقت سے زیادہ قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک لہر آئی تھی صوبہ سندھ میں جب موئن جو دڑو کو بے انتہا پروموٹ کیا جا رہا تھا اور اس حوالے سے کئی تقریبات بھی رکھی گئیں لیکن کچھ عرصے بعد اس کو ایسے چھوڑ دیا گیا جیسے اس لباس کو پہننا ترک کر دیا جاتا ہے جو اب فیشن میں نہ ہو۔
کسی نے موئن جو دڑو کے آس پاس ہوٹل یا رہنے کی مناسب جگہ بنانے کے بارے میں نہیں سوچا جہاں سیاح نہ صرف ملک بھر سے بلکہ دنیا بھر سے آئیں اور ٹھہریں۔
ایسی جگہ جہاں سے سیاح صبح وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے قریب اٹھیں۔ یہ صرف سندھ کی بات نہیں ہے بلکہ خیبر پختونخوا میں تخت بائی اور پنجاب میں ہڑپا اور کئی دیگر مقامات کی بھی بات ہے۔
ایک جانب مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کے بارے میں بات کی جاتی ہے اور دوسری جانب اس کو فروغ دینے کے حوالے سے خاطر خواہ قدم نہیں اٹھائے جاتے۔
بنا کسی پلاننگ کے ہر قسم کے ہوٹل اور کیمپنگ سائٹس جگہ جگہ کھڑے ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ نہ کوئی ویب پورٹل ہے جس پر سیاح جا کر معلومات لے سکیں اور نہ ہی جو ہوٹل بنائے جاتے ہیں ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے کہ تین سال بعد بھی وہ قابل رہائش رہ سکیں۔
پاکستان میں سیاحت کی مزید جگہوں کو ڈیولپ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آخر سوات میں صرف مالم جبہ ہی نہیں ہے بلکہ بہت سے ایسے خوبصورت اور دلکش مقامات ہیں جہاں انسان جا کر کچھ دیر کے لیے ہوش کھو بیٹھتا ہے۔
مقامات تو پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی ہیں لیکن ان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور فروغ اسی وقت دیا جا سکتا ہے جب ان مقامات کو حکمت عملی کے تحت ڈیویلپ کیا جائے اور اس کی دیکھ بھال بھی کی جائے۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نظروں سے گزری جس میں کوئی رئیس جھیل سیف الملوک میں اپنی پراڈو پیدل چلنے والوں کے لیے بنائی گئی سیڑھیوں سے اتار رہا ہے۔
اگر یہ ویڈیو درست ہے تو کیا کوئی نہیں ہے جو اس کو روکتا؟ پہلے جیپوں کو جھیل کے بالکل قریب پارک کرنے کی اجازت دی گئی اور اب گاڑیاں جھیل کے بالکل قریب جا رہی ہیں۔ کیا ہم جھیل سیف الملوک کو خدا حافظ کہہ دیں؟
اگر یہی حال رہا تو بہت جلد ہمیں بہت سی قدرتی مناظر کو خدا حافظ کہنا پڑے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔