دنیا بھر میں 30 جولائی کو انسانی سمگلنگ اور انسانی سوداگری کی روک تھام سے آگاہی کے لیے عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد عوام کو اس جرم سے متعلق آگاہی فراہم کر کے اس کی روک تھام کرنا ہے۔
انسانی سمگلنگ اور انسانی سوداگری کیا ہے اور پاکستان میں اس جرم کے خلاف کیا قوانین بنائے گئے ہیں؟
انسانی سمگلنگ:
انسانی سمگلنگ 2018 میں نافذ کیے گئے پاکستانی قانون کے مطابق کسی ایسے شخص کو اس ملک میں اپنے فائدے کے لیے غیرقانونی طریقے سے داخل کرنے یا سہولت کرنے کو کہا جاتا ہے جس کا وہ شخص نہ تو شہری ہو نہ ہی مستقل باشندہ ہو۔
انسانی سوداگری:
پاکستانی قانون کے مطابق انسانی سوداگری سے مراد کسی شخص کا طاقت کا استعمال، دھوکہ دہی یا زبردستی سے کسی دوسرے شخص کو جبری مشقت یا کاروبار کے طور پر جنسی افعال کے لیے بھرتی کرنا، اسے پناہ دینا، اس کی نقل و حمل کرنا، ان عوامل کے لیے فرد یا افراد مہیا کرنا یا حاصل کرنا یا ایسا کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ ایسا کچھ بھی کرنا اس شخص یا اشخاص کا انسانی سوداگری کا مرتکب ہونا تصور کیا جائے گا۔
آسان الفاظ میں انسانوں پر ایسا کوئی بھی کاروبار کرنا جو غیرقانونی ہے، انسانی سوداگری کہلاتا ہے۔
انسانی سمگلنگ اور انسانی سوداگری میں فرق:
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) نے انسانی سمگلنگ اور انسانی سوداگری میں تفریق کے لیے چند بنیادی عوامل وضع کیے ہیں۔
انسانی سمگلنگ بنیادی طور پر ریاست کے خلاف جرم ہے جبکہ انسانی سوداگری انسانی حقوق اور افراد کے خلاف جرم ہے کیونکہ اس میں افراد کا استحصال کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بارڈر کراسنگ انسانی سمگلنگ کا بنیادی جزو ہے مگر انسانی سوداگری میں بارڈر پار کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ مقامی سطح پر استحصال اس میں شامل ہے۔ انسانی سوداگری میں کسی کو خریدنا، اپنی تحویل میں رکھنا، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا یا متعارف کروانا شامل ہیں۔
سمگلنگ سے متاثرہ افراد اپنی مرضی سے کسی دوسرے ملک میں غیرقانونی طور پر داخل ہوتے ہیں جب کہ انسانی سوداگری میں طاقت کا استعمال، فراڈ یا زبردستی کی جاتی ہے۔
انسانی سمگلنگ میں متاثرہ شخص اور سمگلر کا تعلق کمرشل نوعیت کا ہوتا ہے اور سمگلر اور تارکین وطن کا تعلق غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے اور رقم کی ادائیگی کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب انسانی سوداگری میں یہ تعلق استحصالی نوعیت کا ہوتا ہے اور مالی اور دیگر فوائد کے حصول کے لیے متاثرہ فرد اور سوداگر کے تعلق میں تسلسل پایا جاتا ہے۔
سمگلنگ میں متاثرہ فرد غیرقانونی طریقے سے بارڈر کراس کرنے کے لیے اپنے رضامندی دیتا ہے جبکہ انسانی سوداگری میں عام طور پر بنیادی یا اس عمل کے کسی بھی حصے میں دی گئی رضامندی غیرمتعلقہ ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں کسی بھی مقام پر طاقت کا استعمال، دھوکہ دہی یا زبردستی کا عنصر پایا جاتا ہے۔
انسانی سمگلنگ اور انسانی سوداگری کی سزا:
پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے خلاف قانون 2002 میں متعارف کروایا گیا جسے انسانی سمگلنگ کی روک تھام کا آرڈیننس کہا جاتا تھا۔ اس قانون کے بننے کے 14 سال بعد 2016 میں تعزیرات پاکستان میں ایک شق کا اضافہ کیا گیا جو کہ شق 369- A تھی جس میں صرف انسانی سمگلنگ کی سزا بیان کی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے کنونشن برائے بین الاقوامی منظم جرائم کے دو پروٹوکولز: انسانی سمگلنگ کی روک تھام اور تارکین وطن کی سمگلنگ کی روک تھام کی بنیاد پر پاکستان نے 2018 میں قانون سازی کی اور پہلے سے موجود قانون اور شق نمبر 369- A کو معطل کر دیا۔
پاکستانی قانون کے مطابق جو شخص جان بوجھ کر تارکین وطن کی سمگلنگ میں ملوث ہو یا اس میں ملوث ہونے کی کوشش کرے تو اسے زیادہ سے زیادہ پانچ سال اور کم سے کم تین سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہوگی۔
اسی قانون کے مطابق اگر کوئی شخص اپنے فائدے کے لیے تارکین وطن کی سمگلنگ کو ممکن بنانے کے لیے کوئی دستاویزات بنائے یا بنانے کی کوشش کرے یا ان دستاویزات کو حاصل کرے، مہیا کرے یا اس کا حامل ہو یا یہ سب کرنے کی کوشش کرے تو ایسے شخص کو قید کی تین سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
انسانی سوداگری کے حوالے سے پاکستانی قانون کی شق تین کے تحت انسانی سوداگری کی زیادہ سے زیادہ سزا سات سال تک ہو سکتی ہے یا جرمانہ 10 لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
اگر غیرقانونی سوداگری کے جرم کا ارتکاب بچے یا خاتون کے خلاف کیا جائے تو اس کی زیادہ سے زیادہ سزا 10 سال تک قید یا اس کے ساتھ 10 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہیں۔
اسی قانون کی دفعہ 4 کے مطابق اگر جرم کے ارتکاب کے دوران متاثرہ شخص کو شدید زخمی کرنا، یا زندگی کے لیے خطرہ پیدا کرنے والی بیماری یا موت واقع کرنا یا جرم منظم جرائم پیشہ گروہ کی سرگرمی ہو، یا متاثرہ شخص کی سفری دستاویز کی ضبطی یا ضائع کرنا ہو تو مجرم کو قید 14 سال تک ہو سکتی ہے اور ساتھ 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
اگر متاثرہ شخص ایک بچہ ہو تو استغاثہ اصل میں طاقت کے استعمال دھوکہ دہی یا زبردستی کو ثابت کرنا ضروری نہیں اور عدالت دفاع کے طور متاثرہ بچے کے والد یا والدہ یا سر پرست کی رضامندی کو زیرغور نہیں لا سکتی ہے۔
قانون کی دفعہ 5 کے مطابق اگر کوئی شخص دفعہ 3 یا 4 کے تحت کسی جرم میں ساتھی کے طور پر حصہ لے، مدد کرے یا اعانت کرے، اسے تعزیرات پاکستان کے باب 5 کے مطابق سزا دی جائے گی۔
قانون کی شق نمبر 6 میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ متاثرہ شخص کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی یعنی اس کے خلاف کیس دائر نہیں کیا جائے گا۔
اس قانون کی خاص بات یہ ہے کہ خواتین اور بچوں کے خلاف اس جرم کے ارتکاب کی صورت میں سزائیں خاص طور پر بڑھائی گئی ہیں اور قومی و بین الاقوامی تعاون پر زور دیا گیا ہے۔