مطالبات پر عمل ہونے تک دھرنے جاری رہیں گے: بلوچ یکجہتی کمیٹی

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکام سے مذاکرات اور معاہدے کے بعد جمعے کو کہا ہے کہ مطالبات پورے ہونے تک مختلف شہروں میں احتجاج جاری رہے گا۔

28 جولائی، 2024 کی اس تصویر میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرے میں شریک افراد(اے ایف پی)

 پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے کئی شہروں میں احتجاج کی منتظم بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکام سے مذاکرات اور معاہدے کے بعد جمعے کو کہا ہے کہ مطالبات پورے ہونے تک مختلف شہروں میں احتجاج جاری رہے گا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بلوچستان حکومت کے مابین گذشتہ رات مذاکرات کے بعد فریقین کے دستخط سے ایک معاہدہ میڈیا کو جاری کیا گیا۔

معاہدے کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان و قانونی مشیر عمران بلوچ نے کہا کہ ’مذاکرات کے دوران کیے گئے مطالبات پر عمل درآمد ہونے تک گوادر سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی دھرنے جاری رہیں گے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عمران بلوچ نے کہا کہ ’مذاکرات میں ہم نے مختلف مطالبے رکھے تھے جن میں ایک مطالبہ یہ تھا بلوچ راجی مچی یا بلوچ قومی اجتماع کی مناسبت سے گوادر، کوئٹہ، کراچی سمیت مختلف شہروں سے گرفتار کیے گئے 600 کارکنوں کو دھرنا ختم ہونے سے قبل رہا کر دیا جائے گا۔

’جن افراد کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا گیا ہے، ان کو عدالتی کارروائی کے بعد پانچ اگست کو رہا کر دیا جائے گا۔ سندھ میں گرفتار ہونے والے افراد کی رہائی کے لیے بلوچستان حکومت سندھ حکومت سے بات کرے گی اور ان کی رہائی کو یقینی بنائے گی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’تمام لوگوں کے خلاف دائر مقدمات خارج کیے جائیں گے، ماسوائے وہ مقدمات جن میں جانی نقصان ہوا ہے۔ حکومت تمام شاہراہیں کھول دے گی۔ دھرنا ختم ہونے کے تین گھنٹے بعد موبائل فون اور انٹرنیٹ نیٹ ورک کھول دیے جائیں گے۔‘

ان کے مطابق: ’تمام اشیا جو حکومتی اداروں کے پاس ہیں وہ واپس کی جائیں گی۔ دھرنے میں شرکت کرنے والوں کو ہراساں نہیں کیا جائے گا اور نہ ان کے خلاف مقدمات کیے جائیں گے۔ زخمی اور جانی نقصان کی صورت میں لواحقین کی مدعیت میں مقدمے درج کیے جائیں گے۔‘

عمران بلوچ نے مزید بتایا کہ ’حکومت نے ان تمام مطالبات کو تسلیم کیا تھا، تاہم کارکنان کو رہا نہیں کیا گیا۔ اس سمیت کسی بھی مطالبے پر عمل نہیں کیا ایسے میں دھرنے کیسے ختم کریں؟ جمعے کو گوادر میں دھرنا جاری ہے اس کے علاوہ مختلف شہروں میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔‘

عمران بلوچ کے مطابق: ’معاہدے کے باجود حکومت نے تاحال مختلف شہروں کی سڑکیں نہیں کھولیں۔ لوگ سڑکوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ نیٹ ورک تاحال بند ہیں۔‘

عمران بلوچ نے بتایا: ’حکومت نے تمام گرفتار کارکناں کو پانچ اگست تک رہا کرنے کا کہا ہے تو پانچ اگست تک تو دھرنے جاری رہیں گے۔‘

ایکس پر جاری ایک ویڈیو میں گذشتہ رات حکومت سے مذاکرات کے بعد گوادر میں دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا تھا کہ ’اگر حکومت ہمارے تمام مطالبات پر عملدرآمد نہیں کرتی تو مذاکرات کو فوری طور پر موخر کرکے دھرنے کو جاری رکھیں گے۔‘

دوسری جانب بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا ہے کہ ’معاہدے کے تحت بلوچ یکجہتی کمیٹی کو دھرنا ختم کرنا ہے، مگر اتنے سارے لوگ جو کئی دنوں سے بیٹھے تھے ان کے واپسی میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد رند نے کہا: ’ہم نے تمام سڑکیں کھول دیں ہیں۔ مگر اتنے دنوں سے ان سڑکوں پر موجود گاڑیوں کو ہیوی ٹریفک کے باعث نکلنے میں کچھ وقت لگے گا۔

’معاہدے میں ہم نے اور انہوں نے تمام چیزوں پر باہمی رضامندی کی ہے۔ ہم ان کے مطالبات پورے کر رہے ہیں اور وہ دھرنا ختم کر رہے ہیں۔ معاہدے کے تحت دھرنا ختم ہوگا۔ مگر اتنے لوگ کئی دنوں سے بیٹھے ہیں، ان کو واپسی کے لیے گاڑیاں درکار ہیں، لوگ گاڑیوں کا انتظار کر رہے ہیں۔

’اتنے سارے لوگ چند گھنٹوں میں تو واپس نہیں جا سکتے۔ اس لیے تاخیر ہو رہی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ معاہدے کے تحت دھرنا ختم کیا جائے گا۔‘

حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں، بلوچستان میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور وسائل کے ضیاع اور استحصال کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے 28 جولائی کو گوادر کے مغربی ساحل پدی زر میں بلوچ راجی مچی یا بلوچ قومی اجتماع کے نام سے احتجاج جاری ہے۔

گوادر میں دھرنے کے بعد کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں دھرنے دیے گئے اور کراچی میں بھی احتجاج کیا گیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق اس احتجاج کے دوران ان کی کئی کارکن زخمی ہوئے اور متعدد کارکناں کو گرفتار بھی کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست