مقابلہ حسن کے عالمی مقابلے ’مس یونیورس‘ میں پہلی بار پاکستان کی نمائندگی کرنے والی ایریکا رابن کا کہنا ہے وہ نورزمینہ کے ’مس یونیورس پاکستان 2024‘ بننے پر بہت خوش ہیں۔
گذشتہ سال ایریکا رابن ’مس یونیورس پاکستان‘ بننے والی پہلی خاتون تھیں، ان سے قبل مسلم اکثریتی ملک پاکستان کی کسی خاتون نے کبھی عالمی مس یونیورس مقابلے میں حصہ نہیں لیا تھا۔
تاہم ایریکا رابن کے مس یونیورس پاکستان منتخب ہونے سے پاکستانی حکومت سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس ضمن میں ایریکا رابن سے اس ایک سالہ سفر اور تاج کی منتقلی پر گفتگو کی۔
ایریکا رابن نے اپنی خاص مسکراہٹ اور نپے تلے لہجے میں بتایا کہ ان کا سفر کب مکمل ہوا انہیں محسوس ہی نہیں ہوا، لیکن وہ خوش ہیں کہ انہوں نے اپنا تاج ایک بہت اچھی لڑکی نور زرمینہ کو پہنا دیا ہے جو اب پاکستان کی نمائندگی میکسیکو میں ہونے والے عالمی مقابلے میں کریں گی۔
ایریکا کے مطابق ’میں نے اس مقابلے کی 72 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کی تھی، اور رواں برس یہ کام نور کریں گی اور مجھے امید ہے کہ وہ یہ کام عمدگی سے انجام دیں گی۔‘
ایریکا رابن نے نئی مس یونیورس نور زرمینہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ان کے ساتھ فوٹو شوٹ کیا تھا، اور نور زرمینہ ان سے متاثر ہوئی تھیں۔
’جب میں ان سے ملی تو دیکھا کہ وہ بہت اچھی ہیں، بہت خوبصورت ہیں اور بہت سٹائلش بھی ہیں۔‘
اپنے سفر اور خود پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے ایریکا نے بتایا کہ ’اب جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو وہ تمام سفر اچھا رہا، اور جو بھی مشکلات اس دوران پیش آئیں ان کی وجہ سے میں مضبوط ہوئی ہوں، کیونکہ میں پہلی پہلی تھیں۔
’اس لیے شاید مشکلات بھی زیادہ آئیں، اور میں سمجھتی ہوں کہ جب میں کسی کو اپنے سفر کے بارے میں بتاتی ہوں تو وہ بھی مجھ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
’آج ایک سال بعد مجھے کسی بھی چیز کا کوئی افسوس نہیں ہے۔‘
ایریکا رابن نے کہا کہ ان کا سفر مشکل تھا، اب جو بھی لڑکیاں اس جانب آئیں گی، ان کے لیے آسان سے آسان ہوتا جائے گا، کیونکہ گذشتہ سال انہیں بہت سی چیزیں معلوم ہی نہیں تھی کہ کیا اور کیسے ہو گا۔
’اب میرے پاس تجربہ ہے اور میں ہر آنے والی لڑکی کے لیے ہر وقت موجود ہوں کہ ان کی مدد کیسے کی جائے، میں اپنے تجربات ان سے بانٹوں گی جس میں مجھے بہت خوشی ہو گی۔‘
ایریکا رابن نے بتایا کہ ’میں ساری زندگی کراچی میں رہی ہوں، اس لیے کسی بھی قسم کا ثقافتی یا کلچرل دباؤ محسوس نہیں ہوا، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ پاکستان کے اقدار کیا ہیں اس لیے مجھے اس بارے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔
’میں بہت سارے کام کر سکتی ہوں، لیکن جب آپ اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں تو آپ پر ذمہ داری ہوتی ہے، کیونکہ آپ خود کو نہیں بلکہ اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ فلپائن میں مس یونیورس کے عالمی مقابلے کے لیے اپنے تربیتی مراحل سے گزر رہی تھیں تو انہوں نے وہاں پاکستان کے بارے میں انہیں بتایا کہ کیا ہو سکتا ہے اور کیا نہیں، تو ان لوگوں نے بھی اس چیز کو سمجھا اور اس کے حساب سے ہی کام کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایریکا نے بتایا کہ ان کے ڈائریکٹر جوش یوگن نے بھی پاکستان کی ثقافت کو سمجھا اور وہ اگر کسی لباس کا انتخاب کرتی تھیں وہ منع کر دیتے تھے کہ یہ نہیں پہنو بلکہ اس کی جگہ مختلف پوشاک کا انتخاب کیا جاتا تھا۔
ایریکا رابن نے بتایا کہ جب گذشتہ سال انہیں تاج پہنایا گیا تھا تو اس وقت اس طرح سے نہیں منایا گیا تھا، جس طرح سے ان کا حق تھا کیونکہ لوگوں کے ذہن میں بہت سے سوالات تھے کہ اس میں تو تیراکی کا لباس پہننا پڑتا ہے، یہ پاکستان کی نمائندگی کیوں کر رہی ہے، ان چیزوں نے مجھے کچھ مایوس کیا تھا، اور یہی مشکل مرحلہ تھا۔
’اسی لیے میں چاہتی تھی کہ لوگ اسے سیلیبریٹ کریں تو اس سال جب نور نے تاج پہنا تو اس بار یہ ہوا اور یہ یقین ہے کہ ہر سال یہ بہتری کی جانب ہی بڑھے گا۔‘
ایریکا رابن نے آخر میں کہا کہ ’نور زرمینہ مس یونیورس کا عالمی مقابلہ جیت کر پاکستان کے لیے تاج لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور میں امید کرتی ہوں کہ ایسا ہی ہو۔‘
مس یونیورس مقابلے میں پاکستان کی شرکت
ایریکا رابن کے مس یونیورس پاکستان منتخب ہونے کے وقت نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی حکومت نے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی سے مقابلے کے منتظمین کے بارے میں تحقیقات کرنے کو کہا تھا کہ وہ اس بات کی تحقیق کریں کہ یہ حکومت کی منظوری کے بغیر بظاہر ملک کے نام پر مقابلہ کروانے میں کس طرح کامیاب ہوئے۔
انوار الحق کاکڑ نے مالدیپ میں ہونے والے اس مقابلے کے انعقاد کو ’شرمناک فعل‘ اور ’پاکستان کی خواتین کی توہین اور استحصال‘ قرار دیا تھا۔