بنگلہ دیش کے نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس نے جمعرات کو ڈھاکہ پہنچنے کے بعد ملک کی نگران حکومت کے سربراہ کے طور پر عہدے کا حلف اٹھا لیا۔
محمد یونس نگران حکومت میں بطور چیف ایڈوائزر خدمات سرانجام دیں گے اور ملک میں عام انتخابات کروانا بھی اسی حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 84 سالہ محمد یونس کو طلبہ مظاہرین نے اس کردار کے لیے تجویز کیا تھا جس کے لیے وہ جمعرات کو پیرس سے ڈھاکہ واپس آئے۔
وطن واپس پہنچنے پر انہوں نے حالیہ پرتشدد مظاہروں میں مارے جانے والے افراد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی قربانیوں کے سبب قوم کو دوسری مرتبہ آزادی ملی۔
ڈھاکہ کے ہوائی اڈے پر پہنچنے کے بعد محمد یونس نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ آج ہمارے لیے ایک شاندار دن ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بنگلہ دیش نے فتح کا نیا دن بنایا ہے۔ بنگلہ دیش کو دوسری آزادی ملی ہے۔‘
مودی کا محمد یونس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو بنگلہ دیش کے نئے عبوری رہنما محمد یونس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی ڈھاکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
مودی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ پروفیسر محمد یونس کو ان کی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے پر میری نیک خواہشات۔
ہندوستان امن، سلامتی اور ترقی کے لیے دونوں ممالک کے عوام کی مشترکہ امنگوں کو پورا کرنے کے لئے بنگلہ دیش کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
محمد یونس کی سربراہی میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت آج حلف اٹھائے گی
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت آج نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس کی سربراہی میں حلف اٹھائے گی، جس کے بعد امکان ہے کہ ملک میں کئی روز سے جاری بد امنی ختم ہوگی اور استحکام بحال ہوگا۔
جولائی میں سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کے مظاہروں سے شروع ہونے والی بد امنی جلد ہی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دور حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گئی تھی، جس کے دوران صرف چند ہفتوں میں 300 سے زیادہ اموات ہوئیں۔
پانچ اگست کو حسینہ واجد استعفیٰ دے کر انڈیا روانہ ہوگئیں جبکہ طلبہ رہنماؤں نے پارلیمنٹ تحلیل کرکے محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔
بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین، جو ایک علامتی شخصیت ہیں اور اب آئین کے تحت چیف ایگزیکٹو کے طور پر کام کر رہے ہیں، نے منگل کو پارلیمنٹ تحلیل کر دی تھی، جس سے عبوری انتظامیہ کی راہ ہموار ہوئی، جس کے بارے میں توقع ہے کہ وہ نئے انتخابات کا شیڈول جاری کرے گی، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ انتخابات کب ہوں گے۔
شہاب الدین نے فوج اور طلبہ رہنماؤں کی مشاورت سے محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبوری حکومت کا سربراہ نامزد کیے جانے کے بعد اپنے پہلے بیان میں محمد یونس نے بدھ کو طلبہ کو مبارک باد دی اور لوگوں سے پرسکون رہنے کی بھی اپیل کی۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزمان نے بدھ کو ٹیلی ویژن پر قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ حسینہ واجد کے استعفے کے بعد تشدد کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
آرمی چیف نے بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں کے ہمراہ خطاب میں کہا کہ انہوں نے محمد یونس سے بات کی ہے اور وہ جمعرات کو ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کریں گے۔
وقار الزمان نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ محمد یونس صورت حال کو ’خوبصورت جمہوری‘ عمل کی طرف لے جائیں گے۔
دوسری جانب پیرس میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے محمد یونس نے کہا کہ ’میں اپنے ملک واپس جانے اور یہ دیکھنے کا منتظر ہوں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور ہم کس طرح خود کو منظم کر سکتے ہیں تاکہ اس مشکل سے نکل سکیں جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں۔‘
یہ پوچھے جانے پر کہ انتخابات کب ہوں گے؟ انہوں نے اپنے ہاتھ اس طرح کھڑے کیے، جیسے کہہ رہوں کہ یہ بتانا ابھی قبل ازوقت ہوگا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میں جا کر ان سے بات کروں گا۔‘
اس سے قبل بدھ کو حزب اختلاف کی بیمار رہنما اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا نے ڈھاکہ میں ایک ریلی میں ہسپتال کے بستر سے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے سب پر زور دیا تھا کہ وہ بنگلہ دیش میں تباہی کے راستے پر نہ چلیں۔ 2018 میں بدعنوانی کے الزامات میں جیل بھیجے جانے کے بعد یہ ان کی پہلی عوامی تقریر تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حسینہ واجد کے استعفے کے بعد ہونے والے پرتشدد واقعات میں ملک میں کم از کم 109 اموات اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکمراں جماعت کے وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کے بہت سے گھروں کو لوٹا گیا، جلایا گیا یا توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔
سوشل میڈیا پر لوگوں کو ڈھاکہ کے علاقے گلشن میں حسینہ واجد کی چھوٹی بہن کے گھر سے قیمتی سامان اٹھاتے ہوئے دیکھا گیا۔ ان کے چار الگ الگ پڑوسیوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو لوٹ مار کی تصدیق کی۔
حسینہ واجد کے ملک سے فرار کے بعد بدھ دارالحکومت ڈھاکہ کی سڑکوں پر امن رہا اور طلبہ سڑکوں کو صاف کرتے اور ٹریفک کو رواں دواں رکھنے میں مصروف نظر آئے۔