بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ تحلیل کردی گئی: ایوان صدر

بنگلہ دیش کے ایوان صدر سے منگل کو جاری کیے گئے بیان کے مطابق صدر شہاب الدین نے پارلیمنٹ تحلیل کردی۔

بنگلہ دیش کے ایوان صدر سے منگل کو جاری کیے گئے بیان کے مطابق صدر شہاب الدین نے پارلیمنٹ تحلیل کردی۔

ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف طالب علموں کی قیادت میں ہونے والے پرتشدد احتجاج اور سینکڑوں افراد کی اموات کے بعد بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد پیر (پانچ اگست) کو استعفیٰ دے کر انڈیا روانہ ہو گئی تھیں۔

شیخ حسینہ واجد کے استعفے اور ملک سے فرار کے بعد طلبہ نے نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس کو نئی عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جسے انہوں نے منظور کرلیا ہے۔

دوسری جانب طلبہ نے صدر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ منگل کو تین بجے تک پارلیمنٹ تحلیل کردیں۔

شیخ حسینہ واجد، جن کے خاص طور پر انڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، نے اپنے 15 سالہ اقتدار کے دوران مغرب کے ساتھ زیادہ تر تعاون پر مبنی تعلقات کا فائدہ اٹھایا لیکن ان کے آمرانہ رخ کی وجہ سے انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بنگلہ دیش میں جاری سیاسی بحران کے حوالے سے اپ ڈیٹس یہاں پڑھیے:


محمد یونس کا عبوری حکومت میں شمولیت پر اتفاق

بنگلہ دیش کے نوبیل انعام یافتہ اقتصادی ماہر محمد یونس کے ترجمان نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں (محمد یونس) نے طلبہ کی جانب سے عبوری حکومت میں بطور مشیر شمیولیت پر اتفاق کیا ہے۔

بنگلہ دیش میں احتجاج کرنے والے طلبہ کے کوآرڈینیٹرز نے منگل کی صبح ایک ویڈیو اور بعد ازاں ایک تحریری بیان میں مطالبہ کیا تھا کہ ’ایسی نئی عبوری حکومت تشکیل دی جائے جس کے چیف ایڈوائزر نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس ہوں۔‘

گرامین بینک کے بانی اور سابق مینیجنگ ڈائریکٹر، ماہر اقتصادیات اور انٹرپرینور محمد یونس کو 2006 میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان منگل کو مقامی وقت کے مطابق دوپہر 12 بجے احتجاجی طلبہ کے رابطہ کاروں سے ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

حسینہ واجد انڈیا میں رہیں گی: انڈین میڈیا

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نئی دہلی میں حکومتی ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد انڈیا میں رہیں گی۔

وہ گذشتہ روز ملک میں جاری پرتشدد احتجاج کے دوران استعفیٰ دے کر انڈیا روانہ ہوگئی تھیں۔

حسینہ واجد کی حکومت کے زوال پر علاقائی حکومتوں کی جانب سے فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا، جنہوں نے چین کے ساتھ مضبوط تعلقات برقرار رکھتے ہوئے انڈیا کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک نازک توازن قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔

تاہم انڈیا نے ایک ایڈوائزری جاری کی ہے، جس میں اپنے شہریوں کو بنگلہ دیش کا سفر نہ کرنے کا سختی سے مشورہ دیا گیا ہے۔ انڈین میڈیا کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد نئی دہلی کے قریب ایک فوجی اڈے پر اتریں۔ ایک اعلیٰ سطح کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ لندن جانا چاہتی ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں اجازت دی جائے گی یا نہیں۔


حسینہ واجد کے دور میں گرفتار ہونے والوں کی رہائی کا انتظار 

بنگلہ دیش میں معزول وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران خفیہ طور پر جیلوں میں بند سیاسی قیدیوں کے اہل خانہ اپنے رشتہ داروں کی خیریت کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو منگل کو رہا کر دیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے شیخ حسینہ کی سکیورٹی فورسز پر تقریباً 600 افراد کو اغوا اور غائب کرنے کا الزام عائد کیا ہے، جن میں بہت سوں کا تعلق حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت کالعدم جماعت اسلامی سے ہے۔


امریکہ کا تشدد سے گریز، عبوری حکومت کی تشکیل پر زور

امریکہ نے مظاہرین کے خلاف مزید کارروائیاں کرنے کے بجائے عبوری حکومت تشکیل دینے پر بنگلہ دیشی فوج کو سراہتے ہوئے تمام فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید تشدد سے گریز کریں۔ 

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’گذشتہ کئی ہفتوں کے دوران بہت سی جانیں ضائع ہوئی ہیں اور ہم آنے والے دنوں میں پرسکون رہنے اور تحمل سے کام لینے کی اپیل کرتے ہیں۔‘

میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ نے ایسی خبریں دیکھی ہیں کہ فوج نے طالب علموں کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں پر مزید کریک ڈاؤن کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’اگر یہ سچ ہے کہ فوج نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے مطالبے کے خلاف مزاحمت کی، تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہو گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم عبوری حکومت کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کوئی بھی منتقلی بنگلہ دیش کے قوانین کے مطابق ہو۔‘

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا فوج کو اگلی قیادت کا انتخاب کرنا چاہیے، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیشی عوام مستقبل کی بنگلہ دیشی حکومت کا فیصلہ کریں۔‘

حسینہ واجد کے اپنے دور حکومت میں مغربی طاقتوں کے ساتھ کافی حد تک نتیجہ خیز تعلقات تھے۔ ماضی میں امریکہ نے حسینہ واجد کے معاشی ٹریک ریکارڈ کی تعریف کی تھی اور انہیں اسلامی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے اور میانمار میں ظلم و ستم سے فرار ہونے والے روہنگیا پناہ گزینوں کو پناہ دینے جیسی ترجیحات میں شراکت دار کے طور پر دیکھا تھا۔

لیکن حالیہ برسوں میں امریکہ نے آمرانہ رجحانات کی وجہ سے ان پر تنقید کی اور جمہوریت کے متعلق خدشات پر ویزا پابندیاں عائد کیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے میتھیو ترجمان ملر نے کہا کہ امریکہ نے بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کی مدد کے لیے دو ارب ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ بنگلہ دیش پناہ گزینوں کی میزبانی جاری رکھے اور ہم ایسا کرنے کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔‘


اقوام متحدہ کی سربراہی میں تحقیقات کا مطالبہ

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش کے ترجمان فرحان حق نے کہا کہ ’پرامن، منظم اور جمہوری منتقلی‘ کے ساتھ ساتھ ’تشدد کی تمام کارروائیوں کی مکمل، آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات‘ کی ضرورت ہے۔

بنگلہ دیش کی سابق نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحقیقات کی قیادت کرے۔

برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے ایک بیان میں کہا کہ ’گذشتہ چند ہفتوں کے واقعات کی اقوام متحدہ کی قیادت میں مکمل اور آزادانہ تحقیقات بنگلہ دیش کے عوام کا حق ہے۔‘

یورپی یونین نے بھی ’پرسکون رہنے اور تحمل‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا کہ ’انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کا مکمل احترام کرتے ہوئے جمہوری طور پر منتخب حکومت کی جانب ایک منظم اور پرامن منتقلی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔‘

ورلڈ بینک کا بنگلہ دیش میں اپنے پروگرام کا جائزہ لینے کا فیصلہ

دوسری جانب ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پروگرام پر بنگلہ دیش کے واقعات کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے۔ 

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ورلڈ بینک نے پیر کو کہا کہ وہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفیٰ دینے اور فرار ہونے کے بعد ملک کے ساتھ اپنے قرض پروگرام پر ہونے والے واقعات کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے۔

بینک کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’ہم بنگلہ دیش میں حالیہ ہفتوں میں ہونے والے تشدد اور المناک جانی نقصان پر غم زدہ ہیں اور اس کے فوری اور پرامن حل کی امید رکھتے ہیں۔ ہم عالمی بینک گروپ کے پروگرام پر ابھرتی ہوئی صورت حال کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں اور بنگلہ دیش کے عوام کی ترقی کی خواہشات کی حمایت کے لیے پرعزم ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا