پیرس اولمپکس 2024 میں جیولن تھرو میں ورلڈ ریکارڈ بنا کر سونے کا تمغہ جیتنے والے ارشد ندیم بطور ایتھلیٹ تو کسی تعارف کے محتاج نہیں لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک محنت کش باپ کے گھر پیدا ہونے والے اس نوجوان نے چھ بہن بھائیوں میں رہ کر یہ سفر کیسے طے کیا؟
ارشد نے جیولن تھرو جیسے مشکل ٹاسک کا انتخاب کیسے کیا؟ اور سہولیات نہ ہونے کے باوجود اس کٹھن سفر کو کس طرح طے کر پائے؟
ان سوالوں کے جواب انڈپینڈنٹ اردو نے ان کے آبائی گاؤں جا کر تلاش کرنے کی کوشش کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاہور سے تقریباً 300 کلومیٹر دور جنوبی پنجاب کے شہر میاں چنوں کا نواحی گاؤں 101 آر ایل کافی پسماندہ ہے اور پنجاب کے دوسرے کئی دیہات کی طرح یہاں بھی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
لگ بھگ 1500 گھرانوں کا مسکن یہ چھوٹا سا گاؤں میاں چنوں شہر سے 32 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔
یہاں نہ تعلیم کی مناسب سہولیات ہیں اور نہ ہی صحت کے حوالے سے کوئی مناسب بندوبست دکھائی دیا۔ گاؤں کی ایک کچی گلی، جہاں سیوریج کا مناسب نظام نہیں، میں ایک کچی نالی بہتی دکھائی دی۔ سامنے ایک کچا پکا گھر، جس کے باہر دو تین بینر لگے تھے، جن پر ارشد ندیم کی کامیابی پر مبارک باد کے الفاظ تحریر تھے۔
گھر کے باہر چند صحافی بھی دکھائی دیے، جن میں بیشتر مقامی اور بعض ملتان یا لاہور سے کوریج کی غرض سے وہاں آئے ہوئے تھے۔
گھر کا گیٹ کھلا تھا۔ اندر کئی لوگ موجود تھے، جن میں خواتین بھی شامل تھیں، جب کہ مرد بیٹھک نما کمرے میں پنکھوں کے نیچے بیٹھے دکھائی دیے۔ ایک طرف کچا کچن جہاں مبارک باد دینے کے لیے آئے ہوئے رشتہ داروں اور اہل محلہ کے لیے چائے اور کھانا پکاتی چند خواتین دکھائی دیں۔ عام طور پر دیہات میں غریب گھرانوں میں شادیوں کے موقعے پر ایسا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔
ایک ٹینٹ لگا کر نیچے چند کرسیاں رکھی گئی تھیں، جہاں ایک مقامی فنکار ڈھول بجا رہا تھا اور گاؤں کے بچے کچے صحن میں اس کی تھاپ پر بھنگڑا ڈال رہے تھے۔
دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ارشد ندیم کے بھائی، بہنیں، بھابھیاں، دوست اور رشتہ دار ان کی والدہ رضیہ پروین کے گرد جمع ہیں۔ چائے اور مٹھائی کا سلسلہ بھی جاری تھا۔
ارشد ندیم کی والدہ نے بتایا کہ جب سے اولمپکس مقابلے میں ارشد کو کامیاب دیکھا، اس کے بعد کوئی نہیں سویا بلکہ سب خوشی سے جاگ رہے ہیں۔
ایک سائیڈ پر صحن میں جم کا سامان دکھائی دیا جب کہ دوسری طرف چارپائیاں پڑی تھیں۔ ٹی وی کا اہتمام خصوصی طور پر جیولن تھرو کا مقابلہ دیکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔
رضیہ پروین نے بتایا کہ ان کے سات بچے ہیں، جن میں سے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ’ارشد ان میں تیسرے نمبر پر ہے۔ شادی شدہ ہے اور اس کے بھی تین بچے ہیں۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے۔ اس نے ملک اور ہمارا نام روشن کیا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘
ارشد ندیم کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے والدہ نے بتایا کہ ’ایک محنت کش کے بیٹے کو جس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ارشد نے بھی وہ سب برداشت کی ہیں۔ ان کے والد نے محنت مزدوری کر کے ان کو پڑھایا ہے۔ ارشد کو ساتویں کلاس سے کرکٹ، فٹ بال، گولہ اور نیزہ بازی کا شوق تھا۔ جب میٹرک میں سکول کے مقابلوں میں نیزہ بازی میں اس نے پہلی پوزیشن لی تو اس کے والد نے اسے یہی کھیل جاری رکھنے کو کہا تھا۔
’ارشد اپنی مدد آپ کے تحت نیزہ بازی کرتا رہا اور میٹرک تک تعلیم بھی حاصل کر لی۔ پھر اچانک وہ بڑے بڑے مقابلے جیتنے لگا۔ کئی سال گزرنے کے بعد اس نے پہلے بھی میڈل جیتے اور اب یہ گولڈ میڈل جیت کر ہمارے سر فخر سے بلند کر دیے۔‘
ارشد ندیم کے ایک قریبی دوست بھی یہیں موجود تھے، جن کا نام کلیم اللہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ دونوں بچپن کے دوست ہیں۔ ’ارشد نے پہلے سکول کی سطح اور پھر ڈسٹرکٹ مقابلوں میں نیزہ بازی کے مقابلے جیتے۔ پھر جب پنجاب حکومت نے شہباز شریف کے دور میں سپورٹس فیسٹیول کروایا تو ہم ارشد کے ساتھ نیزہ بازی کے مقابلوں میں لاہور گئے۔ جب ارشد نے وہاں جیولن تھرو سب سے زیادہ فاصلے پر پھینکا تو پنجاب سپورٹس بورڈ حکام نے انہیں گیم بہتر کرنے کے لیے تربیت کی آفر کی جو ارشد نے قبول کر لی۔ اس کے بعد وہ مسلسل کامیابیاں سمیٹتے رہے اور محنت میں اضافہ کرتے چلے گئے، جس کا نتیجہ آج گولڈ میڈل کی صورت میں سامنے آیا۔‘
کلیم اللہ کے بقول: ’ارشد ایک کھلے دل کے سیدھے سادے انسان ہیں۔ ہم بچپن سے اب تک دوست ہیں۔ وہ عاجزی اور انکساری میں اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ایک دن میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سب سے لمبی تھرو کر کے دنیا کو حیران کروں گا۔ ہم سمجھتے تھے کہ مقامی سطح تک تو ارشد کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن دنیا میں تو بہت بڑے کھلاڑی ہیں، یہ کیسے ممکن ہو گا؟ لیکن انہوں نے کر دکھایا۔ پہلے بھی میڈل جیتے اور آج دنیا کو حیران کر دیا۔‘
میاں چنوں شہر میں بھی ارشد ندیم کے 40 سال بعد ملک کو گولڈ میڈل دلوانے کی گونج سنائی دی۔ شہریوں نے ارشد ندیم کو قومی ہیرو قرار دیتے ہوئے اپنا فخر قرار دیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ارشد جیسے محنتی نوجوانوں کو ملک کا ہیرو بنانے کے لیے چھوٹے شہروں میں مواقع اور سہولیات فراہم کی جائیں تو مزید کئی ارشد ندیم پیدا ہو سکتے ہیں۔
ارشد ندیم کو ہم نے پنجاب سٹیڈیم میں پریکٹس کرتے ہوئے بھی دیکھ رکھا ہے۔ سٹیڈیم میں دیگر نوجوان بھی پریکٹس کرتے اور ارشد بھی اپنے کوچ کے ساتھ محنت کرتے دکھائی دیتے رہے۔
عالمی معیار کا نیزہ بھی انہیں کچھ ماہ پہلے ہی شکوہ کرنے پر فراہم کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس سے قبل انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ یہاں عالمی معیار کی نہ تربیت کے مواقع ہیں اور نہ ہی دوسرے ممالک کے ایتھلیٹس کی طرح ان پر کوئی توجہ دی جارہی ہے۔ البتہ انہوں نے یہ دعویٰ ضرور کیا تھا کہ اس بار فٹنس برقرار رہی تو وہ میڈل ضرور لائیں گے۔
اور اب گولڈ میڈل جیتنے کے بعد وطن واپسی پر ارشد ندیم کے شاندار استقبال کی تیاریاں جاری ہیں۔