پاکستان کی کئی شوبز شخصیات نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات میں پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس یوم آزادی پر جہاں پاکستانی پرچم لے رہے ہیں وہیں ایک ایک پودہ ضرور لیں اور ملک کو سبز بنائیں تاکہ موسمی تبدیلی کے باعث بڑھتی گرمی سے کچھ بچاؤ ہو سکے۔
حال ہی میں میرا ایک مجلس میں جانا ہوا، جس کے اختتام پر تبرک میں کھانے پینے کی اشیا نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے پودے دیے جا رہے تھے۔
میں نے نیم کے درخت کا پودہ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ میرا مکان ایسا ہے جہاں صرف گملوں ہی میں پودے لگ سکتے ہیں تو انھوں نے نیم کا پودہ لے کر مجھے لیموں کا درخت تھما دیا کہ سبزہ کا سبزہ رہے اور گھر ہی سے لیموں بھی مل جائیں۔
مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ اگرچہ منتظمین مجلس میں آئے افراد کو آپشن دے رہے تھے، لیکن بہت سارے لوگ ان کو دیے گئے پودوں کو ادھر ہی چھوڑ کر جا رہے تھے۔
کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے کہا کہ ان کے مکانوں کے باہر اتنی جگہ نہیں کہ پودے لگا سکیں لیکن انھوں نے نیم کے درخت کے پودے لے لیے کہ وہ اپنے محلے یا اس کے آس پاس یہ پودہ لگائیں گے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا شمار ان چھ ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور جہاں زیادہ سیلاب اور گلیشیئر پگھلیں گے۔
پاکستان میں جنگلات کُل پانچ فیصد رقبے پر ہیں جو دنیا میں سب سے کم ہے۔ دنیا میں جنگلات کے رقبے کی اوسط 31 فیصد ہے۔
موسمی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافہ اور اس کے ساتھ گرمی میں اضافے سے خوراک کی فراہمی میں کمی اور قیمتوں اضافہ ہو گا اور اس وجہ سے جنوبی اور جنوب مشرق ایشیا میں انڈر نورشمنٹ میں اضافہ ہو گا۔
گرمی کے اضافے سے ایشیائی ممالک میں توانائی کی طلب بڑھے گی۔ ایشیا میں 13 ممالک ایسے ہیں جہاں توانائی کا استعمال بہت زیادہ ہے۔
ان 13 میں سے 11 ایسے ممالک ہیں جہاں توانائی کا عدم تحفظ اور صنعتی نظام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
یہ سب باتیں اقوام متحدہ کے ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمنٹ چینج (آئی پی سی سی) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہی ہیں۔
آئی پی سی سی کے مطابق گلوبل وارمنگ اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ ہم 1.5 ڈگری کے درجہ حرارت میں اضافے کی حد کو 2030 تک عبور کر جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ حد ہم 2040 تک پار کریں گے۔ 2019 میں ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گذشتہ 20 لاکھوں سالوں سے زیادہ تھی۔
گذشتہ 50 سالوں میں درجہ حرارت میں اتنی تیزی سے اصافہ ہوا ہے جو گذشتہ کم از کم دو ہزار سال میں نہیں دیکھا گیا، اور اس سب کے ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم سب ہیں۔
دنیا میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ چند ہی دہائیوں قبل جس دنیا میں ہم رہ رہے تھے اس وقت ہم اس سے کافی مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں۔
موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں اور ایک بار جب یہ اثرات نمایاں ہونے شروع ہو جائیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دیر ہو چکی۔
ماحولیات پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ڈین بلسٹین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی بوتل کے جن کی مانند ہے کہ ایک بار باہر آ گیا تو واپس بوتل میں نہیں ڈالا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر آج ہی سے پوری دنیا میں کاربن کے اخراج کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے تب بھی جو کاربن پہلے ہی ہمارے ماحول میں ہے اس کے اثرات کافی سالوں تک رہیں گے۔