لاہور سفاری زو جہاں شیروں کے درمیان گھوما جا سکتا ہے

لاہور سفاری زو میں ایک بند گاڑی میں بیٹھ کر آپ نہ صرف شیروں کو قدرتی ماحول میں دیکھ سکتے ہیں بلکہ انہیں گوشت بھی کھلا سکتے ہیں۔

لاہور میں سفاری زو کے ڈپٹی ڈائریکٹر تنویر احمد جنجوعہ کے مطابق چار ماہ قبل نئی اصلاحات کی گئیں جن کے باعث شدید گرمی کے باوجود اس چڑیا گھر نے دس کروڑ روپے کا منافع کمایا۔

لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ سے تقریباً 40 کلومیٹر کی مسافت پر قائم لاہور سفاری زو کی اصلاحات کے لیے سابق نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے احکامات جاری کیے تھے۔ چار ماہ قبل اس پارک کا رنگ ڈھنگ ہی بدل دیا گیا۔

یہاں سب سے زیادہ لوگ آتے ہیں یہاں کی لائن سفاری سے محظوظ ہونے کے لیے، جہاں انہیں شیروں کے ساتھ وقت گزارنے اور انہیں کھانا کھلانے کا موقع بھی فراہم کیا جاتا ہے۔

لاہور سفاری زو کے ڈپٹی ڈائریکٹر تنویر احمد جنجوعہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لائن سفاری کے علاوہ نائٹ سفاری بھی کروائی جا رہی ہے، جس کا وقت رات آٹھ سے دس بجے تک ہے۔

تنویر جنجوعہ کا کہنا تھا: ’ہمارے پاس 18 شیر ہیں، جن میں چھ بچے ہیں۔ ہم ان کو گروپس کی صورت میں باہر نکالتے ہیں کیونکہ ایک ساتھ نکالیں تو یہ آپس میں لڑتے ہیں۔ اس لیے ایک گروپ سفاری میں نکلتا ہے اور دوسرا اگلے ہفتے نکالا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ رات کی لائن سفاری میں لوگوں کو زیادہ لطف آتا ہے کیونکہ رات میں شیر زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔

’ کبھی کبھی وہ اندر جانے والی وین کے اوپر بھی چڑھ جاتے ہیں اور اگر آپ چاہیں تو شیروں کو وین کے اندر سے کھانا بھی کھلا سکتے ہیں لیکن اس کا ٹکٹ دو ہزار روپے ہے۔‘

تنویر جنجوعہ کا کہناتھا کہ یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں آپ پنجرے میں بند ہوتے ہیں اور شیر کھلے میدان میں ہوتے ہیں۔

لائن سفاری میں وین کے اندر بیٹھ کر شائقین کو سیر کروانے والے آصف شیراں والا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’میں 32 سال سے شیروں کو ٹرین کر رہا ہوں۔ مجھے یہاں آںے والے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں تاکہ میں ان کے ساتھ سفاری کے اندر جاؤں۔‘

آصف نے ریشما، راجو اور صبا نام پکارے تو شیر وین کی طرف بھاگتے ہوئے آئے۔ آصف کے ہاتھ میں مرغی کا گوشت تھا جسے انہوں نے وین کی کھڑکی کھول کر اس کنارے پر رکھا تو شیروں نے پنجوں پر کھڑے ہو کر اسے وصول کیا۔

آصف نے ان کے پنجوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے ہمیں دکھایا کہ ان شیروں کے پنجے نہیں نکالے جاتے اور یہ انہیں پنجوں سے شکار بھی کرتے ہیں۔

لائن سفاری کے اندر وین کو لے جانے والے ڈرائیور شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی وین دکھائی جس کے چاروں پہیوں کے اوپر انہی کے سائز کے لکڑی کے موٹے موٹے گول بورڈز لگے تھے، جب کہ گاڑی کے چاروں اطراف موٹی جالی لگائے گئی تھی۔ یہی نہیں گاڑی کی ونڈ سکریں پر بھی جالی اور جنگلا لگے تھے۔

شاہد نے بتایا کہ یہ گاڑیاں نئی ہیں لیکن شروع میں شیروں نے گاڑیوں کے پہیے اپنے پنجوں سے پھاڑ دیے تھے، جس کے بعد ان پہیوں پر موٹی لکڑی لگائی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لائن سفاری کے لیے کل چھ مخصوص گاڑیاں ہیں جن میں سے ہر ایک میں 10 سے 12 افراد کھڑے ہو جاتے ہیں اور دن میں ایک گاڑی 15 سے 20 چکر لگاتی ہے۔ سفاری زو کا ایک چکر 10 سے 12 منٹ میں طے ہوتا ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر تنویر جنجوعہ نے بتایا کہ لاہور سفاری زو میں نئے جانور بھی لائے گئے ہیں، جن میں مختلف اقسام کے ہرن ہیں۔ اسی طرح افریقی سفاری میں شتر مرغ ہیں، فیلو ڈیئر اور زیبرا ہیں۔

’ہم مستقبل میں یہاں تین ہاتھی اور نو زرافے بھی لا رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سفاری زو کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں پاکستانی سفاری ہے جہاں ملک میں پائے جانے والے ہرن رکھے ہیں۔  

اسی طرح صحرا کا ایریا بنایا گیا ہے جہاں کالا ہرن پایا جاتا ہے۔

سفاری زو کے اندر گھومنے کے لیے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بھی متعارف کروائی گئی ہیں۔

یہاں سمندری حیات کا بھی ایک الگ حصہ مختص کیا گیا ہے، جہاں درجنوں اقسام کی مچھلیاں رکھی گئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ رش سٹار فش، جیلی فش، بلیک ٹپ وہیل اور ایل پر دیکھا جاتا ہے۔

تنویر جنجوعہ نے بتایا کہ آئندہ ایک دو ماہ میں یہاں مزید چیزیں متعارف کروائیں جا رہی ہیں اور یہاں آنے والے کیمپنگ بھی کر سکیں گے اور چاہیں تو رات بھی رک سکیں گے، جب کہ یہاں ایک ہائی لیول کا ریستوران بھی بنایا جائے گا۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ سفاری زو میں ایک جھیل بھی بنائی جا رہی ہے، جہاں الیکٹرک بوٹ، چپو والی کشتی یا پیڈل والی کشتی بھی متعارف کی جائے گی۔ 

انہوں نے بتایا کہ سفاری میں آنے کا 800 روپے کا پیکج ہے، جس میں زو کا جنرل ایریا، ای وی پر جنگل کا چکر لگایا جانا اور اس کے بعد اسی میں ایکویریم بھی آجاتا ہے، جب کہ بچوں کے لیے یہ رقم 450 روپے ہے۔

سفاری زو آنے والے شائقین میں سے کچھ نے تو سفاری کی بہت تعریف کی جب کہ بعض دوسروں نے یہ شکایت کی کہ یہ مہنگا ہے اور اندر آنے کے بعد بھی مختلف حصوں کو دیکھنے کے لیے ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔

کچھ کا کہنا تھا کہ انہیں لائن سفاری ویسی نہیں لگی جیسا وہ سوچ کر آئے تھے۔ یہاں کا چکر بھی بہت چھوٹا دلوایا جاتا ہے جب کہ شیر زیادہ تر اپنی جگہ پر ہی بیٹھے رہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات