بلند میدان جنگ بالتورو گلیشیئر پر گولی سے زیادہ موسم فوجیوں کا دشمن

انڈپینڈنٹ اردو نے بالتورو گلیشیر کی 18 ہزار فٹ کی بلندی پر موجود پاکستان فوج کی پوسٹ پر ایک دن گزارا اور زندگی کا مشاہدہ کیا۔

بالتورو گلیشیئر قراقرم سلسلے کا دوسرا بڑا گلیشیئر ہے جس کی لمبائی 63 کلومیٹر ہے۔ جہاں یہ گلیشیئر کے ٹو بیس کیمپ ٹریک کے لیے مشہور ہے تو وہیں اس پر پاکستان فوج کی پوسٹیں بھی موجود ہیں۔ برف سے اٹے ان پہاڑوں میں جہاں سانس لینا بھی دشوار ہے وہاں پاکستان آرمی کے جوان گشت کیسے کرتے ہیں، کھاتے کیا ہیں اور دن رات کیسے گزارتے ہیں؟ 

انڈپینڈنٹ اردو نے بالتورو گلیشیئر کی 18 ہزار فٹ کی بلندی پر موجود پاکستان فوج کی پوسٹ پر ایک دن گزارا اور زندگی کا مشاہدہ کیا۔

سکردو ایوی ایشن بیس سے جب ہیلی کاپٹر نے ضلع شگر کی طرف اڑان بھری تو بلند و بالا پہاڑوں کا دلکش سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ آگے جانے کے بعد قراقرم کا دوسرا بڑا گلیشیئر بالتورو دکھائی دینے لگتا ہے۔

بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث اب بالتورو گلیشیئر پر جگہ جگہ جھیلیں بن چکی ہیں جبکہ برف میں شگاف بھی کافی پھیل چکے ہیں۔ ہیلی کے پائلٹ ہمارے رضاکار گائیڈ بن گئے اور ہمیں راستے میں آنے والے ہر اہم مقام کے بارے میں بتاتے رہے۔ کچھ فاصلے پر نیچے کے ٹو بیس کیمپ ٹریک میں لگے کیمپس بھی دکھائی دے رہے تھے۔

اسی اثنا میں آواز آئی کہ اب آپ کنکورڈیا کے اوپر سے گزر رہی ہیں۔ کھڑکی سے باہر جھانکا تو دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو بادلوں میں چھپی تھی اس لیے دیدار نہ ہو سکا۔

گشربرم ون جو آٹھ ہزار 80 میٹر کی بلندی پر واقع ہے وہ انٹرنیشنل ہائیکنگ اینڈ ایلٹیچوڈ ایکپڈیشن کیمپ (آئی ایچ ای سی)  کے عین سامنے ہے۔ وہاں لینڈ کرنے کے بعد پوسٹ پر موجود پاکستانی فوجیوں سے بات چیت کا موقع ملا۔

بلند برفیلے پہاڑوں پر رہنے کے چیلنجز

اس پوسٹ پر موجود میجر احتشام سے سب سے پہلے چیلنجز کے بارے میں ہی پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ’سب سے پہلے تو بلندی پر موجود آب و ہوا اور کم درجہ حرارت ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سردیوں میں ان پوسٹوں پر درجہ حرارت منفی 45 ڈگری ہوتا ہے۔

’سیاچن اور بالتورو گلیشیئر میں 13 سے لے کر 22 ہزار فٹ تک بلندی پر واقع پوسٹیں ہیں۔ جب فوجی ان پوسٹوں پر رہتے ہیں تو انہیں آکسیجن کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلندی فراسٹ بائٹ، ہائپو تھرمیا، بھوک کا ختم ہونا اور سنو بلائنڈنیس (بینائی کھونے) کا بھی خطرہ رہتا ہے۔‘

میجر احتشام نے کہا کہ ’جب بھی کسی فوجی کی تعیناتی ان بلند پہاڑوں پر کی جاتی ہے تو یہاں بھی انہیں آپریشنل ٹریننگ دی جاتی ہے جس میں چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کی تربیت شامل ہے۔ بلند پہاڑوں پر تربیت بھی دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے۔‘

فوجی اپنے آپ کو سخت موسمی حالات سے بچانے کے لیے خصوصی پوشاک، جیکٹس، ٹوپیاں، جوتے اور چشمے پہنتے ہیں۔

برفیلے پہاڑوں میں آمدورفت

پہاڑوں میں نقل و حرکت کیسے کی جاتی ہے؟ برف کے شگاف میں کوئی گر جائے تو کیسے ریسکیو کیا جاتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں کیپٹن حسیب جمشید نے بتایا کہ ’گلیشیئر میں فوجی دستوں کی حرکت برفانی شگاف، پانی کے نالے اور تودوں کی وجہ سے مشکل ہوتی ہے۔ ان سب کے لیے خصوصی آلات کی ضرورت پڑتی ہے جس میں خصوصی ربڑ کے جوتے، سنو بلائنڈنیس سے بچنے کی مخصوص عینکیں، کلہاڑی نما چھڑی اور جوتوں کے اوپر پہننے کے لیے کریمپون استعمال کرتے ہیں۔

’پارٹی ہمیشہ ایک گروپ کی شکل میں آپس میں مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے چلتی ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ رسی میں بندھے ہوتے ہیں تاکہ کوئی ایک کسی شگاف میں گر بھی جائے تو اس کو باآسانی نکالا جاسکے۔‘

باہر کی دنیا میں واپسی بھی ہیلی کاپٹروں یا طویل زمینی سفر کے ذریعےہی ممکن ہے۔

18 ہزار فٹ کی بلندی پر کھانے کا انتظام

پہاڑ کی ان بلندیوں پر جہاں منہ سے نکلی سانس بھی جم جائے وہاں گرم کھانا کیسے میسر ہوتا ہے؟ جمے ہوئے انڈے اور سبزیاں، ہائی الٹیٹیوڈ پر آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے چکن پکانا ناممکن ہے۔ ان کو گلانا مشکل ترین کام ہے۔

پانی بھی نہیں ملتا برف کو پگھلا کر استعمال میں لایا جاتا ہے۔ زیادہ تر بنا بنایا جما ہوا کھانا استعمال کیا جاتا ہے جس کی معیاد کم از کم دو تین مہینے ہوتی ہے۔ آگ میسر نہ ہونے کی صورت میں کھانے کے پیکٹ کو گرم پانی میں رکھ کر گرم کیا جاتا ہے یا پھر کھول کر آگ پر گرم کیا جاتا ہے۔

ان حالات میں بھی یہاں پر تعینات فوجی ہمیشہ چوکس کھڑے رہتے ہیں جن کی نظریں دشمن پر جمی رہتی ہیں۔ اس علاقے میں فوجیوں کے لیے گولیوں کی بجائے موسم سب سے بڑا دشمن ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین