پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا اہم باب طورخم بارڈر بدھ کو تیسرے روز بھی ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند رہا جبکہ بلوچستان میں پاکستان اور افغانستان سرحد پر واقع شہر چمن میں ایک دفعہ پھر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
12 اگست کی شام طورخم کا باب اس وقت بند ہوا جب افغان حکام پاکستان کی سرحد کے ساتھ تعمیراتی کام کا آغاز کر رہے تھے، پاکستان نے افغانستان کی جانب سے تعمیراتی کام کو خلاف ورزی قرار دے کر افغان حکام کو منع کر دیا جس کے بعد دونوں جانب سے سیکورٹی فورسز نے بھاری اور ہلکے ہتھیاروں کا ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔
دوسری جانب بلوچستان کے شہر چمن میں منگل کے روز شروع ہونے والا احتجاج چمن باب دوستی پر تاجروں کی جانب سے پاسپورٹ کے شرائط کے مطالبات پورے نہ ہونے پر کیا جا رہا ہے جس میں مختلف مقامی سیاسی پارٹیوں کے رہنما، تاجران، مزدور شامل ہیں جو لغڑی/محنت کش اتحاد کے زیر اہتمام دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
طورخم بارڈر کی تازہ صورتحال
طورخم بارڈر پر سرحد پار فائرنگ کے نتیجے میں تین پاکستانی سیکورٹی فورسز کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ افغانستان میں دو شہریوں کے جان سے جانے کی اطلاعات موصول ہو چکی ہے۔
دونوں ممالک کے حکام کے مابین تنازعے پر طورخم بارڈر پر ایف سی کمپاؤنڈ میں فلیگ میٹنگ بھی ہو چکی ہے، جس میں دونوں جانب سے فائر بندی پر رضامندی ظاہر کی گئی۔
اجلاس میں تنازعے کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان سفارتی سطح پر حل کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ تاہم اب تک طورخم گیٹ کو مسافروں اور مال بردار گاڑیوں کے لیے نہیں کھولا گیا ہے۔ طورخم گیٹ کی بندش سے سینکڑوں مال بردار گاڑیاں پاک افغان شاہراہ پر کھڑی ہیں جن میں بیشتر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی ہیں۔ تاجروں اور ڈرائیوروں نے دونوں ممالک سے اس حوالے سے اپیل کی ہے کہ گیٹ کو تجارت کے لیے کھول دیا جائے تاکہ ان کے نقصانات کا ازالہ ہو سکے۔
اس حوالے سے ایک سرکاری آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بیک ڈور پر دونوں ممالک کے مذاکرات جاری ہیں اور امید ہے کہ دو دنوں میں طورخم بارڈر کو آمد ورفت اور تجارت کے لیے کھولا جائے گا۔
ڈپٹی کمشنر خیبر کیپٹن ریٹائرڈ ثنااللہ سے واٹس ایپ پر اس بارے میں پوچھا گیا تاہم انہوں نے کسی قسم کا جواب نہیں دیا۔
طورخم بارڈر پاکستان اور افغانستان کے مابین ایک اہم گزرگاہ ہے جہاں افغان ٹرانزٹ گاڑیاں پاکستان اور پاکستان کی مال بردار گاڑیاں افغانستان جاتی ہیں۔ طورخم بارڈر پر پاکستان اور افغانستان کے مابین ماضی میں بھی تنازعات سامنے آتے رہے ہیں جس کے بعد بارڈر کو کئی مرتبہ پہلے بھی بند کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم جب بھی اس بارڈر کو بند کیا جاتا ہے تو سب سے زیادہ دونوں جانب کے تجارتی افراد اور ٹرک ڈرائیور ہی متاثر ہوتے ہیں۔
چمن بارڈر پر احتجاج کا پس منظر
موجودہ احتجاج سے قبل گذشتہ سال اکتوبر کے دوران چمن میں احتجاج شروع ہوا تھا جو دھرنے پر منتج ہوا۔ مظاہرین سے ضلع انتظامیہ نے کئی بار مذاکرات کی کوشش کی تاہم ناکامی ہوئی، بالاخر 304 روز بعد مذکرات کامیاب ہونے پر رواں سال جولائی میں یہ دھرنا ختم کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جولائی 2024 میں ختم ہونے والا طویل دھرنا 25 دن کے وقفے کے بعد دوبارہ دیا شروع کیا گیا ہے جس کے بارے میں مظاہرین کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی جانب سے کامیاب مذاکرات کے دوران ہم سے مقامی سفری دستاویزات پر سفر کی اجازت کا وعدہ کیا گیا تھا، 25 دن گزرنے کے بعد بھی حکومت بلوچستان اپنے وعدے پرعمل نہیں کر رہی ہے، ہمارے مطالبات یہی ہیں کہ بارڈر پرمقامی افراد کو سفر کے لیے پاسپورٹ اور ویزے سے استثنٰی دے کر شناختی کارڈ اور افغان تزکرہ کے استعمال کی اجازت دی جائے۔‘
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چمن شاہد جمیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا گیا کہ ’دھرنے میں تین ہزار کے قریب مظاہرین شامل ہیں انتظامیہ کی کوشش ہے جلد مذاکرات کامیاب ہوں اور دھرنے کو ختم کیا جائے۔‘
چمن مظاہرین کے ساتھ جولائی میں ہونے والے کامیاب مذاکرات کے بعد حکومت پاکستان نے بارڈر کراسنگ کے لیے حکمت عملی تیار کی تھی جس کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ چمن کے شہریوں کو مفت پاسپورٹ جاری کیا جائے گا اور اس کی فیس صوبائی حکومت ادا کرے گی۔‘