سامان افغانستان لے جانے دیں: طورخم پر مزدوروں کا دھرنا

طورخم سرحدی کراسنگ پر 15 روز سے دھرنا دینے والے پاکستانی مزدروں نے اپنے مطالبات نہ ماننے پر شاہراہ بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع طورخم بارڈر کراسنگ پر پاکستانی مزدروں نے سرحد پار ریلیف کے حصول کے لیے گذشتہ 15 روز سے دھرنا دے رکھا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ سرحد پر افغان حکام کی جانب سے ان کے لیے خصوصی اجازت نامہ جاری کیا جائے، دوسری صورت میں وہ ’پاکستان افغان شاہراہ کو بند کردیں گے۔‘

ان مزدوروں کا مطالبہ ہے کہ جس طرح دونوں ممالک کے مابین مذاکرات میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ڈرائیوروں کے لیے بغیر ویزہ کے سرحد پار ریلیف دیا گیا ہے۔ اسی طرح مقامی مزدوروں کے لیے بھی سرحد کے دونوں جانب ریلیف مہیا کیا جائے اور ان کے ساتھ حکام کا رویہ بہتر کیا جائے۔ ان پر تشدد نہ کیا جائے تاکہ وہ محنت مزدوری کر سکیں۔

دھرنے کی قیادت کرنے والے مقامی مزدور اور مزدور یونین کے رکن فہمید اللہ شنواری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے ’احتجاجی دھرنے کا بنیادی مقصد سرحد کے اُس پار افغان حکام کے رویے کو دنیا اور عالمی اداروں کو دکھانا ہے۔‘

فہمید اللہ شنواری نے بتایا کہ ’طورخم بارڈر کے دونوں جانب پاکستانی مزدور جن کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے قانونی سفری دستاویزات کے ساتھ سرحد پار افغانستان جاتے ہیں جہاں وہ سامان لے جاتے ہیں اور واپسی پر اپنے ساتھ چاکلیٹ، گھی، بسکٹ کولڈ ڈرنکس اور دیگر معمولی قیمت کا قانونی سامان لاتے ہیں، جو وہ یہاں فروخت کرتے ہیں اور ہزار دو ہزار روپے کماتے ہیں، لیکن گذشتہ کئی ماہ سے افغان حکام کا پاکستانی مزدوروں کے ساتھ رویہ قابل افسوس ہے۔‘

فہمید اللہ شنواری نے بتایا کہ ’پاکستانی مزدوروں پر افغان حکام تشدد کرتے ہیں اور ان سے بامشقت کام لیا جاتا ہے۔ افغان حکام ان ہی کے ذریعے اپنے مورچوں اور چیک پوسٹوں کے لیے پانی اور دیگر سامان لے جاتے ہیں۔‘

دھرنے میں شریک ایک اور مزدور سعد شنواری نے بتایا کہ ’جب پاکستانی مزدور افغانستان جاتے ہیں تو وہاں افغان حکام ان کو تحویل میں لے کر ان کو پورا دن کھڑا رکھتے ہیں اور گیٹ بند ہونے سے قبل ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘

دھرنے میں شامل ایک اور مزدور رہنما حضرت سلام شنواری نے بتایا کہ ان کے پاس افغانستان کا ویزہ ہے۔ ’افغان حکام قانونی سفری دستاویزات ہونے کے باوجود محنت مزدوری نہیں کرنے دیتے۔ ہم افغانستان سے چاکلیٹ، کولڈ ڈرنکس اور بسکٹ وغیرہ لاتے ہیں۔ افغان حکام ہمیں اجازت نہیں دیتے اور ہمارا سامان اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں جو واپس نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ ہمارے پاسپورٹ بھی ضبط کر لیے جاتے ہیں اور ہمیں بے جا تنگ کیا جاتا ہے۔‘

حضرت سلام شنواری نے بتایا کہ ’ابھی تک کسی ایم پی اے، ایم این اے یا سرکاری ادارے نے ہماری فریاد نہیں سنی اور نہ ہی احتجاجی دھرنے میں شریک ہوئے ہیں۔‘

حضرت سلام شنواری نے بتایا کہ ’مزدوروں کا یہی مطالبہ ہے کہ حکومت فلیگ میٹنگ کے ذریعے افغان حکام سے اس حوالے سے مذاکرات کرے اور مزدوروں کے لیے ریلیف فراہم کیا جائے۔‘

ان کے بقول: ’دونوں حکام نے جس طرح مل بیٹھ کر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ڈرائیوروں کے لیے ویزہ کی شرط منسوخ کی ہے، اسی طرح بارڈر پر دونوں جانب مزدوروں کو بھی ریلیف فراہم کیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 پاکستان افغان شاہراہ پر جاری یہ احتجاجی دھرنا 24 گھنٹے جاری رہتا ہے اور بیشتر مزدور یہیں پر سحری اور افطاری کا اہتمام کرتے ہیں اور رات بھی یہاں پر گزارتے ہیں۔

اس دھرنے کے حوالے سے جب تحصیل لنڈی کوتل کے اسسٹنٹ کمشنر ارشاد علی مہمند سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’مزدوروں کی یونین کے ساتھ ملاقات میں ان کے مسائل سے آگاہ کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ حکومت پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ بارڈر پار کا ہے۔‘

ان کے مطابق وہ اور دیگر حکام افغان بارڈر حکام کے ساتھ مقامی سطح پر فلیگ میٹنگ کا انعقاد کریں گے اور مزدوروں کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

ارشاد علی مہمند کے بقول بیشتر مسائل کابل اور اسلام آباد کی سطح پر ہوتے ہیں، جن میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا، تاہم ضلعی انتظامیہ مقامی مزدوروں کو ریلیف دینے کے لیے ہر ممکن اور قانونی اقدامات اٹھاتی رہی ہے۔

تاہم طورخم سرحد پر کسٹم حکام کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہاراللہ کو بتایا کہ یہ مسئلہ اصل میں سمگل شدہ اشیا کے بارے میں ہے اور اسی وجہ سے افغان حکام سرحد کے اُس جانب اور پاکستانی حکام افغان مزدوروں کا سامان پاکستان میں داخل ہونے نہیں دے رہے۔

اہلکار نے بتایا: ’یہ مزدور اکثر چینی اور ممنوعہ خوراک افغانستان سمگل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس پر افغان حکام کی جانب سے انہیں تنگ کیا جاتا ہے۔‘

دوسری جانب افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ کو بتایا کہ وہ ’اس حوالے سے طورخم پر موجود افغان حکام سے پہلے معلومات حاصل کریں گے اور پھر اس پر موقف دیں گے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان