منکی پاکس کے پھیلاؤ کا عالمی خطرہ، پاکستان میں ہائی الرٹ

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منکی پاکس کے پھیلاؤ کو عالمی ہنگامی صورت حال قرار دینے کے بعد پاکستان میں بھی متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔

 ایک لیبارٹری نرس 19 جولائی 2024 کو کانگو میں مونگی کی ایک لیب میں مونکی پاکس کے مشتبہ  مریض بچے سے نمونہ لے رہی ہے (روئٹرز)

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے منکی پاکس کے پھیلاؤ کو عالمی ہنگامی صورت حال قرار دینے کے بعد پاکستان میں بھی متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔

پاکستان کی وزارت صحت کے ترجمان ساجد شاہ نے جمعرات کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صحت ڈاکٹر مختار احمد بھرتھ نے  ملک بھر کے تمام ایئرپورٹس کو ایم ۔ پاکس سے بچاؤ کے حوالے سے  الرٹ رہنے کی ہدایت کر دی ہے۔‘

ترجمان نے بتایا کہ پاکستان میں ابھی تک ایم ۔ پاکس کی اس نئی قسم کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے۔

وزارت صحت نے وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صحت ڈاکٹر مختار احمد بھرتھ کے حوالے سے بیان میں کہا کہ بارڈر ہیلتھ سروسز پاکستان کے ادارے کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے، تمام ایئرپورٹس پر بھی سکریننگ کے نظام کو یقینی بنایا جا رہا ہے اور انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔

وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صحت نے کہا کہ عوام کو وباؤں سے محفوظ رکھنے  کے لیے تمام تر ضروری اقدامات کو یقینی بنا رہے ہیں۔

’وزارت صحت اور بارڈر ہیلتھ سروسز کا عملہ ہر قسم کی ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیے الرٹ ہے اور وزارت صحت صورت حال کی مانیٹرنگ کو یقینی بنا رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ قومی اور صوبائی صحت عامہ کی لیبارٹریز ایم ۔ پاکس وائرس کی تصدیق کے لیے اچھی طرح سے تیار ہیں۔ 

پاکستان کی وزارت صحت کے مطابق اس سال اب تک افریقی ممالک میں مشتبہ ایم ۔ پاکس کے 17 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ  517 اموات کی اطلاع ملی ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے منکی پاکس کو عالمی تشویش کا باعث قرار دے دیا

ڈبلیو ایچ او نے بدھ کو کانگو اور افریقہ کے دیگر مقامات پر منکی پاکس کی نئی قسم کے پھیلاؤ کو ایک عالمی ہنگامی صورت حال قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ یہ وائرس بین الاقوامی سرحدوں کے پار بھی پھیل سکتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈینام گیبری ایسس کا یہ اعلان اقوام متحدہ کی ہیلتھ ایجنسی کی ہنگامی کمیٹی کے اجلاس کے بعد سامنے آیا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق افریقہ کے بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز (سی ڈی سی) نے منگل کو منکی پاکس کو براعظم میں صحت عامہ کی ایمرجنسی قرار دیا۔

ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ اس سال افریقہ میں منکی پاکس کے 14 ہزار سے زیادہ کیسز اور 524 اموات ہوئی ہیں، جو پچھلے سال کے اعداد و شمار سے زیادہ ہیں۔

اب تک تمام کیسز اور اموات میں سے 96 فیصد سے زیادہ ایک ہی ملک یعنی کانگو میں ہوئیں۔ سائنس دانوں اس بیماری کی ایک نئی قسم کے پھیلاؤ کی وجہ سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں، جو لوگوں میں زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے۔

منکی پاکس کیا ہے؟

منکی پاکس، جسے ’منکی پاکس‘ بھی کہا جاتا ہے، پہلی بار سائنس دانوں نے 1958 میں اس وقت دریافت کیا، جب بندروں میں ’پاکس جیسی‘ بیماری پھیلی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے تک، انسانوں میں یہ بیماری وسطی اور مغربی افریقہ کے لوگوں میں دیکھی گئی، جو متاثرہ جانوروں سے قریبی رابطے میں آئے۔

2022 میں پہلی بار اس وائرس کے جنسی تعلقات کے ذریعے پھیلنے کی تصدیق ہوئی اور اس نے دنیا بھر کے 70 سے زائد ممالک میں اس وبا کو جنم دیا، جہاں پہلے منکی پاکس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا۔

منکی پاکس، چیچک جیسے وائرس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی علامات میں بخار، سردی لگنا اور جسم میں درد شامل ہیں۔ زیادہ سنگین کیسز میں انسان کے چہرے، ہاتھوں، سینے اور جنسی اعضا پر زخم پیدا ہو جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افریقہ میں کیا ہو رہا ہے؟

افریقہ میں منکی پاکس کے کیسز کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ ہفتے افریقہ کے بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز نے رپورٹ کیا کہ کم از کم 13 افریقی ممالک میں منکی پاکس کا پتہ چلا ہے اور پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں منکی پاکس کے کیسوں میں 160 فیصد اور اموات میں 19 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

رواں سال کے شروع میں، سائنس دانوں نے کانگو کے کان کنی والے شہر میں منکی پاکس کی ایک نئی قسم کے پھیلاؤ کی اطلاع دی تھی، جس کے باعث 10 فیصد لوگوں کی موت ہو سکتی ہے اور یہ زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے۔

منکی پاکس کے گذشتہ پھیلاؤ کے برعکس، جس میں زیادہ تر سینے، ہاتھوں اور پیروں پر زخم دیکھے گئے تھے، منکی پاکس کی اس نئی قسم میں ہلکی علامات کے ساتھ ساتھ جنسی اعضا پر بھی زخمی دیکھے گئے۔ اس سے اس بیماری کی نشاندہی کرنا مشکل ہو جاتا ہے، یعنی متاثرہ لوگ یہ جانے بغیر ہی دوسروں کو بیمار کر سکتے ہیں کہ انہیں منکی پاکس ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ حال ہی میں پہلی بار چار مشرقی افریقی ممالک برونڈی، کینیا، روانڈا اور یوگنڈا میں منکی پاکس کی شناخت کی گئی اور ان تمام کیسز کا تعلق کانگو میں پھیلنے والی وبا سے تھا۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈینام نے کہا کہ ادارے کو افریقہ کے اندر اور اس سے باہر بیماری کے مزید پھیلاؤ پر تشویش ہے۔

آئیوری کوسٹ اور جنوبی افریقہ میں، صحت کے حکام نے منکی پاکس کی ایک مختلف اور کم خطرناک قسم کے پھیلاؤ کی اطلاع دی ہے، جو 2022 میں پوری دنیا میں پھیلی تھی۔۔

ہنگامی اعلان کا کیا مطلب ہے؟

ڈبلیو ایچ او کے ہنگامی اعلان کا مقصد عطیہ دینے والی ایجنسیوں اور ممالک کو متحرک کرنے کی ترغیب دینا ہے، لیکن گذشتہ اعلانات پر عالمی ردعمل ملا جلا رہا ہے۔

افریقہ سی ڈی سی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر جین کیسیا نے افریقہ کے بین الاقوامی شراکت داروں سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ افریقہ میں منکی پاکس کے پھیلاؤ کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن میں میڈیسن کے پروفیسر مائیکل مارکس نے کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ بیماری پر کنٹرول کی موجودہ حکمت عملی کام نہیں کر رہی اور مزید وسائل کی واضح ضرورت ہے۔‘

اپنی ہنگامی میٹنگ سے پہلے ٹیڈروس نے کہا کہ مختلف ممالک میں حکام منکی پاکس کے پھیلاؤ سے ’مختلف طریقوں اور خطرے کی مختلف سطحوں‘ کے ساتھ نمٹ رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وبا کو روکنے کے لیے ایک موزوں اور جامع ردعمل کی ضرورت ہوگی۔‘

’سیو دی چلڈرن‘ کانگو کے ڈائریکٹر گریگ ریم نے کہا کہ تنظیم خاص طور پر مشرق میں پناہ گزینوں کے پرہجوم کیمپوں میں منکی پاکس کے پھیلاؤ کے بارے میں فکر مند ہے جہاں تین لاکھ 45 ہزار بچے ’غیر صحت مند حالات‘ میں مقیم ہیں۔

ایموری یونیورسٹی میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر بوگھوما ٹائٹنجی نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ کانگو میں منکی پاکس سے بچے اتنے غیر متناسب طور پر کیوں متاثر ہوئے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بچے وائرس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں یا سماجی عوامل، جیسے کہ زیادہ بھیڑ اور اس بیماری میں مبتلا والدین کے ساتھ رابطے میں رہنا اس کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

منکی پاکس پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟

2022  میں درجنوں ممالک میں منکی پاکس کے پھیلاؤ پر بڑے پیمانے پر امیر ممالک میں ویکسین اور علاج کے استعمال سے قابو پا لیا گیا تھا، اس کے علاوہ لوگوں کو خطرناک رویے سے بچنے کے لیے قائل کیا گیا تھا، لیکن افریقہ میں بمشکل ہی کوئی ویکسین یا علاج دستیاب ہوا ہے۔

لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے مارکس نے کہا کہ حفاظتی ٹیکوں سے ممکنہ طور پر مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا: ’ہمیں بڑی مقدار میں ویکسین کی فراہمی کی ضرورت ہے تاکہ ہم سب سے زیادہ خطرے میں پڑنے والی آبادیوں میں ویکسینیشن کر سکیں۔‘

کانگو نے کہا ہے کہ وہ ویکسین کے ممکنہ عطیات کے بارے میں عطیہ دہندگان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے اور اس نے برطانیہ اور امریکہ سے کچھ مالی امداد حاصل کی ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے پہلے ہی افریقہ میں منکی پاکس کے ردعمل کی حمایت کے لیے اپنے ہنگامی فنڈ سے 1.45 ملین ڈالر جاری کیے تھے، لیکن ادارے کا کہنا ہے کہ حالیہ پھیلاؤ میں اسے ابتدائی 15 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی صحت