سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ملک بھر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بندش کے مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ آئندہ دو ہفتوں میں انٹرنیٹ سے جڑے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔
15 اگست 2024 کو جاری ہونے والی یہ ہدایات کمیٹی کے ارکان کی جانب سے ملک بھر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کے متاثر ہونے کا معاملہ اٹھائے جانے کے بعد سامنے آئی ہیں۔
ادھر پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (پاشا) نے جمعرات کو ایک پریس ریلیز میں کہا کہ فائر وال سے ہونے والی انٹرنیٹ کی سستی سے پاکستانی معیشت کو 30 کروڑ ڈالر تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔
پاشا کے سینیئر وائس چیئرمین علی احسان نے کہا کہ فائر وال پہلے ہی سے انٹرنیٹ میں لمبے عرصے تک جاری رہنے والی بندشوں کا باعث بن چکی ہے اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کی غیر یقینی کارکردگی کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہونے کا خطرہ ہے۔
گذشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت ہونے والے سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے حکام پیش ہوئے۔
کمیٹی ارکان نے آئی ٹی انفراسٹرکچر پر منحصر کاروباروں (ڈیجیٹل معیشت) خاص طور پر ’ای کامرس‘ کرنے والے اداروں کے جاری نقصانات کا حوالہ دیتے ہوئے انٹرنیٹ پر بندش کی مذمت کی۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ ’انٹرنیٹ کی سست روی کے باعث یومیہ کم از کم 50 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ بہت سے ’ای کامرس‘ کرنے والے عالمی کاروباری اداروں نے پاکستان سے کاروباری روابط بھی ختم کر دیے ہیں۔‘
سینیٹر افنان نے وٹس ایپ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ کرنے سے متعلق عوام کی شکایات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس سے کاروباری طبقات کے علاوہ عام صارفین بھی یکساں متاثر ہو رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ ’اگر قومی فیصلہ ساز نوجوانوں کو روزگار فراہم نہیں کر سکتے تو انہیں حاصل آن لائن خدمات فروخت کرنے کی سہولت واپس نہ لی جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اجلاس میں اٹھائے گئے خدشات کا جواب دیتے ہوئے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نمائندگی کرنے والی سیکریٹری عائشہ حمیرا چوہدری نے کہا کہ ’موبائل آپریٹرز کی سروسز انٹرنیٹ سست روی سے متاثر ہوئی ہیں اور اس کی وجہ ممکنہ طور پر ’تکنیکی مسئلہ‘ ہے اور انہوں نے قائمہ کمیٹی اراکین کو یقین دلایا کہ یہ مسئلہ جلد ہی حل کر لیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انٹرنیٹ سست روی موبائل فون صارفین کو درپیش مسئلہ ہے جبکہ براڈ بینڈ صارفین اس سے متاثر نہیں۔‘
اس موقعے پر حیران کن بات یہ سامنے آئی کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی حکام نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ’ملک کے کسی بھی حصے سے انٹرنیٹ سروس کے بارے میں انہیں کسی بھی قسم کی شکایت موصول نہیں ہوئیں۔‘
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے انٹرنیٹ کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصانات کی رپورٹ بھی طلب کی، لیکن پی ٹی اے کی جانب سے متعلقہ شعبے کے ماہرین اور اعلیٰ حکام قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور اس وجہ سے ’فائر وال کے معاملے‘ پر بحث کا ایجنڈا مکمل کیے بغیر ملتوی کر دیا گیا۔
اتھارٹی کو فائروال سے متعلق تفصیلات قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کرنی تھیں، جس نے اس معاملے پر اِن کیمرہ بریفنگ (خفیہ تفصیلات) طلب کی تھیں۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی کے نمائندوں نے تو انٹرنیٹ پر پابندی کی تردید کی ہے لیکن وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ڈبلیو آئی ایس پی اے پی) نے گذشتہ روز ہی ایک بیان میں انٹرنیٹ کی سست روی کو انتہائی سنگین مسئلہ قرار دیا اور اس کی بھرپور مذمت کی۔
نمائندہ تنظیم نے اس مسئلے کا ذمہ دار اُس حکومتی پالیسی کو قرار دیا، جس کا تعلق سکیورٹی اور نگرانی میں اضافہ ہے۔ تنظیم کی جانب سے کہا گیا کہ اگر یہ حکمت عملی برقرار رہی تو بصورت دیگر اس کے ناقابل تلافی سنگین معاشی نتائج برآمد ہوں گے۔
جاری کردہ بیان میں ڈبلیو آئی ایس پی اے پی کے چیئرمین شہزاد ارشد نے انکشاف کیا کہ انٹرنیٹ کی رفتار میں 30 سے 40 فیصد کم کر دی گئی ہے، جس سے آن لائن کاروباری اداروں اور آن لائن روزگار کرنے والے افراد متاثر ہو رہے ہیں اور اگر قابل اعتماد انٹرنیٹ رابطے فوری بحال نہ کیے گئے تو ڈیجیٹل معیشت کو مزید معاشی نقصانات ہوں گے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اور وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے یہ مسئلہ ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے، جب ملک بھر میں لاکھوں افراد کو انٹرنیٹ تک رسائی محدود کر دی گئی ہے اور انہیں عمومی رابطہ کاری یا سوشل میڈیا کے استعمال میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے طول و عرض میں ایسے دیہی و شہری علاقوں کے صارفین زیادہ متاثر ہیں، جو موبائل فونز کے ذریعے انٹرنیٹ (ڈیٹا کنکشن) کا استعمال کرتے ہیں۔
پچھلے کئی ہفتوں سے میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست روی کا تعلق درحقیقت سیاسی مخالفت کو دبانے اور سوشل میڈیا کو لگام دینے کے لیے ہے، جسے انٹرنیٹ فائر وال کی مبینہ ٹیسٹنگ سے منسوب کیا گیا ہے۔
پاکستان بھر میں انٹرنیٹ تک رسائی میں رکاوٹ کی مذمت کرنے والے وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے بھی اسے غیرضروری سکیورٹی اور لامحدود نگرانی میں اضافہ قرار دیتے ہوئے اس کے سنگین معاشی نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
15 اگست ہی کو تیسری اہم پیش رفت یہ سامنے آئی کہ لاہور ہائی کورٹ میں انٹرنیٹ کی بندش کو چلینج کر دیا گیا۔
عدالت عالیہ سے رجوع کرنے والے درخواست گزار نے کہا کہ ’پاکستان میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر انٹرنیٹ سست کر دیا گیا ہے اور انٹرنیٹ کی بندش سے آن لائن (آئی ٹی) کاروبار کرنے والے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک طرف دنیا جدید ترین ٹیکنالوجیز پر انحصار کر رہی ہے اور تیز سے تیز ترین انٹرنیٹ ایجاد ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار سست کر دی گئی ہے، جس سے ڈیجیٹل معیشت کے شعبے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔‘
شکیل احمد نامی درخواست گزار نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سوشل میڈیا وسائل پر بندش اور انٹرنیٹ کی سست روی کو ختم کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔
اس بارے میں جب وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) شزا فاطمہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’انٹرنیٹ کے سست ہونے کی شکایات موصول ہو رہی ہیں اور حکومت جانتی ہے کہ ڈیجیٹل اکانومی اور ڈیجیٹل گورنمنٹ کا انحصار انٹرنیٹ کی اچھی رفتار پر ہوتا ہے۔‘
وزیر مملکت نے کہا کہ ’پی ٹی اے سے گذشتہ دو ہفتوں کا ڈیٹا طلب کیا گیا ہے۔ ڈیٹا ٹریفک کو دیکھ کر انٹرنیٹ سپیڈ کے بارے میں علم ہو گا کہ یہ کس قدر کم ہوئی ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’حکومت فائیو جی (تیزرفتار) انٹرنیٹ شروع کرنے کا جلد اعلان کرے گی اور اس سلسلے میں آکشن کی کوششیں اور تیاریاں جاری ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’فائر وال کا تعلق سائبر سکیورٹی سے ہے اور صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں تمام ممالک میں فائر وال استعمال کی جا رہی ہے۔‘
بقول شزا فاطمہ: ’فائر وال سے پہلے ویب مینیجمنٹ سسٹم تھا۔ حکومت اس پرانے سسٹم کو اپ ڈیٹ کر رہی ہے تاکہ مستقبل قریب میں زیادہ سنگین نوعیت کے سائبر سکیورٹی حملوں سے بچا جا سکے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ فائروال نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان پر جس قدر سائبر حملے ہوئے ہیں، ان کے بارے میں اعداد و شمار جلد جاری کیے جائیں گے۔