پاکستان کے دفتر خارجہ نے ملک کے سابق فوجی افسران کی گرفتاریوں سے متعلق امریکہ کے حالیہ بیان پر کہا ہے کہ وہ اس کا خیر مقدم نہیں کرنا چاہتے۔
جمعے کو ترجمان وزارت خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے سابق فوجی افسران کے خلاف کارروائی پر امریکہ کے رد عمل پر کہا ہے کہ وہ ’ایسے بیان کا خیرمقدم نہیں کرنا چاہتیں جس کی کسی غیر ملکی حکومت سے توقع بھی نہیں تھی۔‘
ممتاز زہرہ نے بات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک غیر ملکی حکومت کو، جیسا کہ ہم کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
’اس لیے اگر کوئی حکومت بیان دینے سے گریز کرتی ہے تو یہ درست بات ہو گی اور حکومت پاکستان کو اس کا خیر مقدم کرنے کی ضرورت نہیں۔‘
گذشتہ روز امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے ترجمان نے پاکستان میں سابق فوجی اہلکاروں کی گرفتاری کو ملک کا ’اندرونی معاملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’امریکہ علاقے میں استحکام اور باہمی مقاصد کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
جمعرات کو پینٹاگون کی ڈپٹی پریس سیکریٹری سبرینا سنگھ سے پریس بریفنگ کے دوران پاکستان میں سابق فوجی افسران کو تحویل میں لیے جانے اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی رپورٹس کے تناظر میں سوال کیا گیا کہ ’جب پاکستان کے سینیئر سیاست دان کہتے ہیں کہ امریکی فوج، سفارتی تعلقات سے زیادہ پاکستانی فوج پر توجہ دیتی ہے تو کیا یہ آپ کے لیے تشویش کی بات ہے؟‘
جس پر ترجمان سبرینا سنگھ نے جواب دیا کہ ’ان رپورٹس کے حوالے سے جن کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ گرفتاریوں سے متعلق ان رپورٹس سے (ہم) آگاہ ہیں۔ میرے پاس اس بارے میں (بتانے کے لیے) آپ کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ دراصل پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے جس پر وہی بات کر سکتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور باہمی مفادات کی بنیاد پر فوجی اور سویلین رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرتا ہے۔
جس کے بعد آج ترجمان دفتر خارجہ سے سوال کیا گیا کہ ’کیا آپ امریکہ کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے معاملات میں (مبینہ) مداخلت نہیں کر رہے ہیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے اور جب اس نے سینیٹ، کانگریس وغیرہ میں قراردادیں پاس کیں؟‘
چند روز قبل پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فوج کی تحویل میں لیے جانے اور ان پر فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی کیے جانے سے متعلق بیان جاری کیا تھا۔
جنرل فیض حمید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ سمیت مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے علاوہ فوج کے دیگر تین ریٹائرڈ افسران کو بھی تحویل میں لیا گیا ہے۔
ممتاز زہرہ نے افغانستان میں ٹھکانے رکھنے والے دہشت گرد گروپوں کی جانب سے کارروائیوں میں اضافہ پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں تشویش ہے کہ افغانستان میں اڈے رکھنے والے ان دہشت گرد گروہوں کی طرف سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’پاکستان گذشتہ کئی ماہ سے تشویش کا اظہار کر رہا ہے اور ہم افغان حکام سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائیاں کریں گے۔‘
انہوں نے کہا ’پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
’افغان حکام کو ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف موثر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جس میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کو حوالے کرنا اور ان گروہوں کو غیر مسلح کرنا شامل ہے۔‘
دوسری جانب ممتاز زہرہ بلوچ نے انڈین حکام سے ان کی جیلوں میں قید پاکستانیوں تک رسائی فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم انڈین حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جیلوں میں قید پاکستانیوں تک رسائی فراہم کریں۔
’کبھی کبھار ہمیں چند معاملات میں قونصلر رسائی مل جاتی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا مزید وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے اور قونصلر رسائی کے لیے پاکستان کی درخواست کو زیادہ گرانٹ کیا جانا چاہیے۔‘