فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے کرسچن ٹاون کے رہائشی تجمل وحید اور ان کے چار بھائی گذشتہ ایک سال سے کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ان کا اپنا گھر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔
ان کا گھر گذشتہ سال 16 اگست کو مبینہ توہین مذہب کے واقعے کے بعد ہونے والے فسادات کے دوران لوٹ مار کر کے جلا دیا گیا تھا۔
وحید میونسپل کمیٹی جڑانوالہ میں یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں جبکہ ان کے چار بھائی بھی مزدوری کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس سانحے کے بعد حکومت کی طرف سے انہیں کوئی مالی امداد نہیں دی گئی جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر کی تعمیر ومرمت نہیں کر سکے۔
’بہت بڑا نقصان ہوا ہے، ہمارا گھر کھنڈر بنا ہوا ہے، دروازے توڑ کر لوٹ مار کی گئی اور باقی سب جلا کر ضائع کر دیا۔ ہم ہر جگہ گئے ہیں لیکن کوئی ہماری بات ہی نہیں سنتا ہے،‘ یہ کہنا تھا تجمل وحید کا۔
انہوں نے بتایا کہ ’اسٹنٹ کمشنر نے خود آ کر ہمارا جلا ہوا گھر دیکھا تھا لیکن وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ اسے تو کچھ بھی نہیں ہوا۔‘
تجمل نے بتایا کہ وہ اور ان کے بچے اب بھی خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں کہ کہیں دوبارہ اس طرح کا واقعہ نہ ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کہیں کچھ ہو جائے ہمارے بچے کانپنا شروع ہو جاتے ہیں اور رونے لگتے ہیں کہ ہمارا کیا بنے گا۔‘
جڑانوالہ کی ناصرت کالونی میں واقع سینٹ پال پیرش ہاوس بھی کھنڈر بنا ہوا ہے۔
میونسپل کمیٹی جڑانوالہ کے سابق اقلیتی رکن شکیل بھٹی بتاتے ہیں کہ 16 اگست کو مظاہرین نے اس عمارت میں لوٹ مار کرنے کے بعد کچن میں استعمال ہونے والے گیس سلنڈرز کو ٹی وی لاونج میں رکھ کر آگ لگا کر بلاسٹ کر دیا تھا جس سے پوری عمارت میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ ’ایک سال سے اس عمارت کی تعمیر نو اور ملزموں کی گرفتاری کے لیے اسسٹنٹ کمشنر جڑانوالہ، پولیس اور لاہور ہائی کورٹ کے چکر لگا رہے ہیں لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
’ہائی کورٹ کے حکم پر ہمیں 20 لاکھ کا چیک ملا ہے لیکن صرف اس عمارت کی تعمیر نو کا تخمینہ 70 سے 80 لاکھ روپے ہے جبکہ دیگر نقصان اس کے علاوہ ہے۔‘
کرسچن کالونی کی رہائشی ممتاز ان چند متاثرین میں شامل ہیں جنہیں حکومت کی طرف سے 20 لاکھ کا چیک ملا تھا لیکن وہ بتاتی ہیں کہ اس رقم سے ان کے گھر کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی۔
ممتاز کا کہنا ہے کہ ’میرے خاوند تین سال قبل ریٹائر ہوئے تھے اور ہم نے ان کی پینشن سے یہ گھر تعمیر کیا تھا۔ وہ اب وفات پا چکے ہیں اور میں پائی پائی جوڑ کر پھر سے اس گھر کی مرمت مکمل کروا رہی ہوں لیکن ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ وہ شیطان پھر نہ آ جائیں۔‘
ان کا گھر سینٹ جون چرچ کے بالکل سامنے ہے جبکہ جن دو افراد پر توہین مذہب کا الزام لگا تھا وہ اسی چرچ کی عقبی گلی میں رہائش پذیر تھے۔
ممتاز بتاتی ہیں کہ پولیس نے خود ان کی گلی میں آکر لوگوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ کر چلے جائیں کیونکہ ہجوم بہت زیادہ ہے اور وہ انہیں روک نہیں سکیں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر اس دن پولیس مظاہرین کو جمع ہونے سے پہلے ہی حفاظتی انتظامات کر لیتی تو شاید ہمارے گھر اور مال اسباب بچ سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘
شکیل بھٹی بتاتے ہیں کہ ان فسادات میں جڑانوالہ کی مختلف آبادیوں کے 27 چرچ اور 300 سے زائد گھروں کو توڑ پھوڑ کے بعد جلایا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے اکثر چرچرز کی تعمیر و مرمت اور تزئین و آرائش تو کی ہے لیکن جو سامان کا نقصان ہوا تھا وہ پورا نہیں کیا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ سینٹ جونز چرچ سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا لیکن اس کا تعمیر ومرمت کا کام ادھورا چھوڑ دیا گیا جسے کرسچن کمیونٹی نے خود مکمل کروایا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس چرچ کے نیچے کمیونٹی ہال میں سٹوڈنٹس کے لیے ایک کمپیوٹر لیب تھی جس کے کمپیوٹرز اور دیگر سامان بھی جلا دیا گیا تھا لیکن وہ بھی نہیں دیا گیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ حکومت نے کچھ گھروں کو امدادی رقم کے چیک دیے ہیں لیکن اس سے لوگوں کا نقصان پورا نہیں ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا اگر حکومت متاثرین کو چیک تقسیم کرنے سے پہلے نقصان کا سروے کروا لیتی تو شاید کسی بھی متاثرہ گھرانے کی حق تلفی نہ ہوتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس واقعے کے بعد بہت سے متاثرین کی ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں، ہمارے بچوں کو تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔‘
شکیل بھٹی بتاتے ہیں کہ غیر محفوظ حالات کی وجہ سے وہ خود کچھ عرصہ قبل اپنی ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان بند کر چکے ہیں۔
’میری دکان اس بازار میں بچوں کے ریڈی میڈ گارمنٹس کی سب سے بڑی دکان تھی جہاں پر سب سے زیادہ ورائٹی دستیاب ہوتی تھی لیکن اس سانحے کے بعد جب کئی ماہ تک دکان بند رکھنی پڑی تو پھر میں نے یہی بہتر سمجھا کہ اس مستقل ہی بند کر دیا جائے۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ پولیس بھی فسادات میں ملوث ملزموں کو سزائیں دلوانے میں ناکام رہی ہے اور تقریباً 99 فیصد گرفتار ملزم ضمانتوں پر رہا ہو چکے ہیں۔
جڑانوالہ کی کرسچن کمونٹی سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر متاثرین کے حالات بھی اوپر بیان کی گئی کہانیوں سے مختلف نہیں ہیں۔
دوسری طرف ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چرچز کی سرکاری خرچ پر تزئین و آرائش اور بحالی مکمل کی جا چکی ہے اور جن گھروں کو نذر آتش کیا گیا تھا ان کے رہائشیوں کو فی گھرانہ 20 لاکھ روپے امداد دی جا چکی ہے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ان فسادات میں مسیحی برادری کے 19 چرچ اور 86 گھروں کو نذر آتش کیا گیا تھا۔
تاہم اس حوالے سے تصدیق شدہ تفصیلات کے حصول کے لیے سات ماہ قبل ڈپٹی کمشنر فیصل آباد کو پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن(آر آئی ٹی) ایکٹ 2013 کے تحت دی گئی درخواست کا تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کی طرف سے معلومات کی عدم فراہمی پر پنجاب انفارمیشن کمیشن میں جمع کروائی گئی اپیل کو بھی تین ماہ قبل معلومات کی فراہمی یا وجہ بتائے بغیر ڈسپوز آف کر دیا گیا تھا۔
اس اپیل کو معلومات کی فراہمی یا وجہ بتائے بغیر ڈسپوز آف کرنے سے متعلق وجوہات جاننے کے لیے پنجاب انفارمیشن کمیشن میں جمع کروائی گئی آر ٹی آئی ریکویسٹ پر بھی تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
فیصل آباد پولیس نے ان فسادات میں ملوث 142 نامزد اور 5071 نامعلوم ملزموں کے خلاف 22 ایف آئی آر درج کی تھیں لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود کسی ملزم کو سزا نہیں ہو سکی ہے۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت فیصل آباد پولیس سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق جڑانوالہ فسادات میں ملوث 131 نامزد اور 249 نامعلوم ملزموں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ان میں سے 299 ملزم جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں جبکہ 228 ملزم ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں اور 163 ملزموں کی شناخت پریڈ کروانے کے بعد 77 کو تفتیش میں ڈسچارج کر دیا گیا ہے جبکہ 11 نامزد اور 4822 نامعلوم ملزم تاحال مفرور ہیں۔
علاوہ ازیں فرائض میں غفلت برتنے پر سابق ایس ایچ او تھانہ سٹی جڑانوالہ انسپکٹر منصور صادق، اسٹنٹ سب انسپکٹر عباس علی اور ہیڈ کانسٹیبل عبدالوحید کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کے علاوہ کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
پولیس سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق جڑانوالہ کی مسیحی کمیونٹی کی امتیازی سلوک سے متعلق شکایات کے ازالے کے لیے بنائے گئے میثاق سنٹر میں گذشتہ ایک سال کے دوران 31 شکایات موصول ہوئی تھیں جن کا ازالہ کروا دیا گیا ہے اور اس وقت کوئی شکایت زیر التوا نہیں ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ توہین مذہب کے اس مبینہ واقعہ کے مرکزی ملزم قرار دیئے گئے راکی مسیح اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سے بری ہونے کے باوجود تاحال اپنے گھر واپس نہیں لوٹ سکے ہیں۔
ان کے چچا کامران بشیر نے بتایا ہے کہ اس واقعہ کے بعد ان کے گھر کو بھی جلا کر راکھ کر دیا گیا تھا۔
کامران بشیر نے بتایا کہ ’میں اور میرے گھر والے سات ماہ تک روپوشی کی زندگی گزارنے کے بعد واپس اپنے گھر آئے ہیں، حکومت یا کسی این جی او نے ہماری کوئی مدد نہیں کی ہے۔ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گھر کی دوبارہ مرمت کی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ ایک سال سے بیروزگار ہیں اور ان کے گھر میں صرف ایک وقت کا کھانا بنتا ہے جس کی وجہ سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جن لوگوں نے یہ انتشار پھیلایا تھا وہ سب بری ہو کر واپس آ گئے ہیں، کم از کم انہیں اس بات کی سزا تو ملنی چاہیے تھی کہ انہوں نے لوگوں کو جھوٹ بول کر اشتعال دلایا۔ انہیں احساس ہوتا کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘
کامران بشیر نے بتایا کہ ان کے بھتیجے توہین مذہب کے جھوٹے الزامات سے بری ہونے کے باوجود واپس اپنے گھر نہیں آ سکے ہیں کیونکہ پولیس کی طرف سے ان پر دباو ہے کہ وہ واپس یہاں نہ آئیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مین سٹریم سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور پی پی پی کے نمائندوں نے سانحہ جڑانوالہ کے بعد متاثرین کی بحالی میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔
تاہم جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے نمائندوں نے متاثرین کی مدد اور بحالی کے لیے نمایاں کام کیا جسے کرسچن کمیونٹی بھی تسلیم کرتی ہے۔
سانحہ جڑانوالہ کے متاثرین کی بحالی اور ملزموں کو سزائیں دلوانے کے حوالے سے پنجاب حکومت کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب کے صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور رامیش سنگھ اروڑہ نے 15 اگست کو دورہ فیصل آباد کے موقع پر اس حوالے سے کوئی ذکر نہیں کیا۔
سانحہ جڑانوالہ کے حوالے سے حکومتی اقدامات سے متعلق جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے رامیش سنگھ اروڑہ سے رابطہ کیا مگر انہوں نے ایک تقریب میں مصروفیت کا عذر پیش کیا اور بعد میں کی جانے والی کالز اور واٹس ایپ میسجز کا جواب نہیں دیا۔