بنگلہ دیش میں مظاہرین نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی رہائش گاہ سے لوٹا ہوا سامان واپس کر دیا ہے۔ نئی عبوری حکومت کئی ماہ تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد امن وامان بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق اب تک تقریباً 500 اشیا مبینہ طور پر واپس کی جا چکی ہیں، جن میں 120 قسم کا فرنیچر، 70 الیکٹرانک آلات اور ڈیڑھ سو گدے شامل ہیں۔
چوری شدہ سامان کی واپسی اس وقت شروع ہوئی جب احتجاج کی قیادت کرنے والے طلبہ رہنماؤں نے اس کی واپسی اور وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ بحال کرنے کی مہم شروع کی۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں جمعرات کو بھی تشدد کا سلسلہ جاری رہا، جس میں 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔
یہ تشدد جون کے آخر میں اس وقت شروع ہوا تھا، جب سکیورٹی فورسز نے بنگلہ دیش کی 1971 کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کے رشتہ داروں کے لیے ملازمتوں میں متنازع کوٹہ ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔
مختصر وقفے کے بعد یہ احتجاج حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف احتجاج میں بدل گیا۔ پانچ اگست کو سینکڑوں مظاہرین نے وزیراعظم کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا اور ان کے استعفے کا مطالبہ کیا، جس کے بعد وزیراعظم ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا فرار ہو گئیں۔
مظاہرین نے ان کے گھر میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔ انہوں نے ملبوسات، فرنیچر، ریفریجریٹر، لیپ ٹاپ، گٹار اور یہاں تک کہ زندہ اور مردہ بکریاں، مرغیاں اور خرگوش بھی چوری کر لیے۔
اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک آٹو رکشہ ڈرائیور نے رہائش گاہ کے کمرے میں ایک دراز سے ایک لاکھ بنگلہ دیشی ٹکا (659 پاؤنڈ) چوری کیے۔
مظاہرے میں شامل جس شخص نے بطخ کھائی، انہوں نے اس کی قیمت ادا کر دی ہے، جب کہ دوسرے نے ہیرے کی نتھ اور جھمکے سمیت دیگر زیورات لوٹائے۔
کبوتر اور بلی بھی واپس کر دیے گئے ہیں۔ حال ہی میں واپس کی گئیں خفیہ دفاعی اور سکیورٹی دستاویزات کا پلندہ محفوظ کمرے میں رکھ دیا گیا ہے، جس کی نگرانی فوج کر رہی ہے۔
لوٹے گئے سامان کی واپسی کی مہم چلانے والوں نے وزیراعظم ہاؤس کے گیٹ پر ایک کاؤنٹر قائم کیا ہے تاکہ لوگ لوٹی ہوئی اشیا وہاں جمع کروا سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مہم چلانے والوں نے اخبار کو بتایا کہ وہ ایک ایسی خاتون کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو رہائش گاہ سے میک اپ کا بیگ اٹھائے ہوئے نظر آئیں۔
دریں اثنا ڈھاکہ میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ پارٹی کے 100 سے زیادہ ارکان اور حامی اس وقت زخمی ہوئے، جب طلبہ مظاہرین اور سیاسی کارکنوں کے ہجوم نے ان پر لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں اور پائپوں سے حملہ کر دیا۔
بنگلہ دیش کے بانی اور جلاوطن وزیراعظم کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل کی برسی کے موقع پر عوامی لیگ کے حامی جمع ہوئے حالانکہ عبوری حکومت نے اس روز قومی تعطیل ختم کر دی ہے۔
قبل ازیں شیخ حسینہ نے اپنی حامیوں سے کہا کہ وہ ان کے والد کی یاد میں بنائے گئے عجائب گھر کے باہر ’پھولوں کے ہار رکھیں اور مرنے والے تمام لوگوں کے لیے دعا کریں۔‘
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ احتجاج کے دوران مارے جانے والوں کی موت کا مقدمہ شیخ حسینہ کے خلاف چلایا جائے۔ ان کی سیاسی جماعت کے اعلیٰ رہنماؤں اور سینیئر پولیس افسران کے خلاف مقدمات کے اندراج کے لیے پہلے ہی پولیس کو درخواستیں دی جا چکی ہیں۔
© The Independent