انڈیا کے مشرقی شہر کولکتہ میں گذشتہ ہفتے ایک نوجوان ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں 10 لاکھ سے زائد ڈاکٹر ہفتے کو ہڑتال کر کے ہسپتالوں کی سروسز بند کر رہے ہیں۔
آر جی کار میڈیکل کالج، جسے مغربی بنگال کی حکومت چلاتی ہے، کے عملے کے مطابق مقتول ڈاکٹر تقریباً 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران 20 گھنٹے تک کام کرنے کے بعد ایک لیکچر ہال میں سو گئی تھیں، جس کے دوران ان سے دست درازی کی گئی۔
ان کے ساتھیوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ وہ زمین پر بچھے ہوئے قالین پر سوئی تھیں کیونکہ ڈاکٹروں کے لیے کوئی رہائشی یا آرام کرنے کے کمرے موجود نہیں ہیں۔
گذشتہ جمعے (نو اگست) کو ان کی لاش ملی، جس کے حوالے سے پولیس نے تصدیق کی کہ انہیں ریپ کے بعد قتل کیا گیا۔
انڈیا کے ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ 24 گھنٹے کی بندش سے زیادہ تر ہسپتالوں کے محکمے متاثر ہوں گے، سوائے ضروری سروسز کے۔
انڈیا کے کئی شہروں میں لاکھوں خواتین نے بھی ’ری کلیم دا نائٹ‘ (Reclaim The Night) یعنی ’رات واپس لو‘ تحریک کے سلسلے میں ریلیاں نکالیں اور خاتون ڈاکٹر کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔
ان کا یہ مارچ ایک طاقتور احتجاج تھا، جو اس واقعے پر گہرے اور اجتماعی غم کا مظہر تھا۔
سب سے بڑے احتجاج کولکتہ میں ہوئے جہاں خواتین نے پلے کارڈز، شمعیں اور قومی پرچم تھامے ہوئے ملک کا 78 واں یوم آزادی منایا اورمتاثرہ ڈاکٹر کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔
22 سالہ طالبہ ریا بینرجی نے بتایا کہ وہ احتجاج میں حصہ لینے کے لیے پانچ کلومیٹر سے زیادہ راستہ پیدل چل کر آئی ہیں کیونکہ ’یہ ضروری تھا کہ ہر کوئی اپنی آرام دہ زندگی سے باہر نکل کر اپنی آواز بلند کرے۔‘
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ہم متاثرہ ڈاکٹر کے لیے انصاف چاہتے ہیں، ہم عوامی جگہوں کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مردوں کی طرف سے زیادتی کے خوف میں کیوں جیئیں؟‘
خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل نے پورے ملک میں احتجاج کی لہر پیدا کردی ہے، جو 2012 کے دہلی گینگ ریپ کیس کی یاد دلاتا ہے۔ نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت سیاسی جماعتیں بھی اس معاملے پر احتجاج کر رہی ہیں جبکہ عوامی شخصیات خواتین کے خلاف جرائم میں سخت سزا کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
پانچ مردوں اور ایک نابالغ نے 16 دسمبر 2012 کو نئی دہلی میں ایک 23 سالہ فزیو تھراپسٹ ٹرینی اور ان کے مرد دوست کے بس میں سوار ہونے کے بعد خاتون کے ساتھ بار بار زیادتی کی اور دونوں کو لوہے کی سلاخ سے مار کر سڑک پر پھینک دیا تھا۔ خاتون تقریباً دو ہفتے بعد سنگاپور کے ایک ہسپتال میں اندرونی زخموں کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔
2012 کے بعد سخت قوانین بننے کے باوجود، انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے میں بہت کم تبدیلی آئی ہے۔ 2022 میں انڈیا میں اوسطاً ہر روز ریپ کے 86 کیسز رپورٹ ہوئے۔
حالیہ واقعے کے خلاف پورے کولکتہ میں 100 سے زائد مقامات پر اور مغربی بنگال کے قریبی قصبوں میں بدھ کو رات گئے احتجاج شروع ہوئے تھے، جو جمعرات کی صبح تک نئی دہلی سمیت ملک کے کئی شہروں میں جاری رہے۔
کولکتہ کی ایک ریلی میں ایک پوسٹر پر لکھا تھا: ’ہم انصاف چاہتے ہیں۔‘ ایک اور پر لکھا تھا کہ ’زیادتی کرنے والے کو پھانسی دو، خواتین کو بچاؤ۔‘
میڈیکل ایسوسی ایشن کے جونیئر ڈاکٹرز نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے دھروو چوہان نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا کہ ’ملک بھر کے ڈاکٹر یہ سوال کر رہے ہیں کہ ہماری سکیورٹی کے لیے قانون بنانا اتنا مشکل کیوں ہے۔ ہڑتال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ تمام مطالبات کو باضابطہ طور پر پورا نہیں کیا جاتا۔‘
دریں اثنا وزیراعظم نریندر مودی نے جمعرات کو نئی دہلی میں یوم آزادی کے موقع پر اپنے خطاب میں کولکتہ کے واقعے کا براہ راست ذکر نہیں کیا لیکن خواتین کے خلاف جاری تشدد پر گہرے غم کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہماری ماؤں اور بہنوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر غصہ ہے، اس پر ملک میں غصہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’خواتین کے خلاف جرائم کی جلد تحقیقات ہونی چاہییں، خواتین کے خلاف درندگی پر سخت اور جلد سزا ہونی چاہیے۔ یہ روک تھام اور معاشرے میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔‘
کولکتہ پولیس سے وابستہ ایک سول رضاکار سنجی روی کو اس کیس کے سلسلے میں گرفتار کر لیا گیا ہے، جنہیں اب ایک غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کے مطالبات کے بعد وفاقی تحقیقاتی ایجنسی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں غیر ضروری طبی خدمات پر شدید اثر پڑنے کے باوجود جمعے کو مزید احتجاج کا منصوبہ بنایا گیا، جس سے ہزاروں مریض متاثر ہوئے۔
ایک اہم یونین نیشنل فیڈریشن آف ریذیڈنٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن مکمل تحقیقات، متاثرہ خاندان کے لیے معاوضے اور صحت کے شعبے کے کارکنوں کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے لیے ایک خاص قانون بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
کالج سکوائر، کولکتہ میں اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے والی دیبجانی روی نے کہا: ’اب اور نہیں۔ انہیں احتجاج دیکھنا چاہیے تاکہ جب وہ بڑی ہوں تو وہ کسی بھی مرد کو جواب دینے کے قابل ہوں، جو انہیں تنگ کرنے کی جرات کرے۔‘
مظاہرہ کرنے والی ایک خاتون شالینی دتہ نے ٹیلی گراف کو بتایا: ’یہ صرف ایک رات کی بات نہیں ہے، ہر رات خواتین کو یہ آزادی اور اختیار ہونا چاہیے کہ وہ باہر جا سکیں تاکہ مستقبل میں کسی بھی لڑکی کے والدین کو یہ سوچنا نہ پڑے کہ اگر رات دیر ہو گئی تو ان کی بچی محفوظ واپس آئے گی یا نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کئی شہروں میں لاکھوں خواتین نے ’رات واپس لو‘ کے نعروں کے ساتھ مارچ کیا۔ (یہ اصطلاح عام طور پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے استعمال ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ خواتین کو رات کے وقت بھی آزادانہ اور محفوظ محسوس کرنے کا حق ہے۔)
’منٹ نیوز پیپر‘ نے فِن ٹیک کمپنی میں پی آر مینیجر پینجلہ کنڈو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’مجھے ذاتی طور پر توقع نہیں تھی کہ پورا شہر احتجاجی مارچ میں شریک ہوگا۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ میرا شہر ابھی بھی اپنے حقوق کے لیے لڑ سکتا ہے۔ یہ دیکھ کر دل خوش ہوا کہ مائیں اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چل رہی تھیں۔ حتیٰ کہ باپوں نے بھی بیٹیوں کو آگے بڑھنے دیا جبکہ وہ چٹانوں کی طرح پیچھے کھڑے رہے۔‘
’رات واپس لو‘ تحریک کی مرکزی شخصیت رم جھم سنہا نے اس واقعے کو خواتین کے لیے ایک نئی آزادی کی جدوجہد کے طور پر بیان کیا، جس کی عکاسی ایک طاقتور وائرل پوسٹر سے کی گئی تھی، جس میں ایک سرخ ہاتھ چاند کو پکڑے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
رم جھم سنہا، جو ایک سماجی سائنس کی محقق ہیں اور 2020 میں کلکتہ کی پریذیڈنسی یونیورسٹی سے سوشیالوجی کی گریجویٹ ہیں، جونیئر ڈاکٹر کے ریپ اور قتل سے بہت صدمے میں تھیں۔
جب میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل سندیپ گھوش کی طرف سے متاثرہ خاتون کو مورد الزام ٹھہرانے والے تبصرے پر وہ غصے میں آئیں، تو انہوں نے یوم آزادی کی شام باہر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔
مبینہ طور پر سندیپ گھوش نے سوال اٹھایا تھا کہ جونیئر ڈاکٹر سیمینار ہال میں اکیلی کیوں گئی تھیں۔
انہوں نے کلکتہ میں اخبار دی ٹیلی گراف کو بتایا: ’ایسا تبصرہ، جو متاثرہ فرد پر الزام عائد کرے، ناقابل قبول ہے۔ احتجاجاً، میں نے 14 اگست کی رات باہر گزارنے کا فیصلہ کیا۔ کوئی بھی رات پر دعویٰ نہیں کر سکتا اور ہمیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کون باہر جا سکتا ہے اور کیوں۔‘
رم جھم سنہا کا یہ فیصلہ فیس بک پر وائرل ہوگیا، جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
انہوں نے اتنے بڑے ردعمل پر اپنی حیرت اور جذباتی کیفیت کا اظہار کیا، یہ دیکھتے ہوئے کہ بہت سی خواتین نے احتجاج میں حصہ لیا، چاہے وہ چند گھنٹوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔
انہوں نے نیوز 18 کو بتایا: ’میں اس پورے ردعمل سے بہت متاثر ہوں۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ خواتین اپنے گھروں سے باہر نکل رہی ہیں اور اگرچہ وہ پوری رات نہیں رک سکتیں، وہ رات میں دو یا تین گھنٹے رکنے کا فیصلہ کر رہی ہیں۔‘
’رات واپس لو‘ کی تحریک ایک عالمی تحریک ہے، جو 1970 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی، جس کا مقصد خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہے تاکہ وہ عوامی مقامات پر رات کے وقت خود کو محفوظ محسوس کر سکیں اور تشدد سے بچ سکیں۔
یہ تحریک اکثر احتجاج، مارچ، اور شمعیں روشن کرنے پر مشتمل ہوتی ہے جہاں خواتین اور ان کے حامی رات کے وقت سڑکوں پر نکلتے ہیں، علامتی طور پر ان مقامات کو واپس لے کر اور معاشرتی اصولوں کو چیلنج کرتے ہیں، جو خواتین کی آزادی کو محدود کرتے ہیں اور متاثرہ فرد کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
’رات واپس لو‘ کی تحریک جنسی حملوں، ہراسانی، اور صنفی بنیاد پر تشدد جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشش کرتی ہے اور محفوظ معاشروں کے لیے اور ان اہم مسائل کی آگاہی بڑھانے کے لیے آواز اٹھاتی ہے۔
سینٹر فار سوشل ریسرچ کی ڈائریکٹر رنجنا کماری نے دی گارڈین کو بتایا: ’جب میں یہ خاموشی دیکھتی ہوں، جب میں پڑھتی ہوں کہ انہوں نے کیسے اسے بے دردی سے قتل کیا، ہسپتال میں سکیورٹی کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا، تو میرا خون کھول جاتا ہے۔ 2012 کے بعد سے کچھ بھی، بالکل کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ جس کمرے میں یہ واقعہ پیش آیا، وہاں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ بھی نہیں تھا۔‘
جونیئر ڈاکٹر کے غمزدہ اور دکھی والد نے ’دی انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ وہ حکومت سے کوئی رقم قبول نہیں کریں گے۔ ’اگر میں نے اپنی بیٹی کی موت کے بدلے رقم قبول کی، تو اسے دکھ ہوگا۔ ہمیں انصاف چاہیے۔ ہم نے معاوضہ ٹھکرا دیا ہے اور آئندہ بھی کوئی قبول نہیں کریں گے۔‘
انڈیا کی رکن پارلیمنٹ کنی موزی نے ایکس پر لکھا: ’پورا ملک کولکتہ میں جونیئر ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے ہولناک واقعے سے دہل گیا ہے۔ ان کے ساتھ کیے گئے ظالمانہ اور غیر انسانی عمل کی تفصیلات نے ہمیں ہلا دیا ہے۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا انڈیا میں کوئی بھی عورت کہیں بھی محفوظ ہے؟ ہمیں کھڑے ہونا اور کچھ کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میں اس ناقابل برداشت درد میں متاثرہ کے خاندان کے ساتھ کھڑی ہوں۔‘
© The Independent