ماہرین آثار قدیمہ نے کولمبیا کے علاقے ایمازون میں بڑی چٹان دریافت کی ہے جس کے غالب حصے پر جانوروں کی سرخ رنگ کی تصاویر بنی ہوئی ہیں۔
یہ تصویریں ساڑھے 12 ہزار سال قدیم ہیں۔ یہ دریافت براعظم میں رہنے والے ابتدائی انسانوں کے عقائد اور غذا کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔
کولمبیا کے علاقے سیرنیا ڈی لا لنڈوسا میں واقع سیرو اسول پہاڑی پر بنی حیرت انگیز تصویروں میں جانوروں اور انسانوں سمیت متعدد مخلوقات کو کسی دوسری مخلوق میں تبدیل ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
الگ تھلگ پہاڑی کی چوٹی ہموار ہے جہاں سرخ رنگ کی تصویروں کے 16 ’پینل‘ موجود ہیں۔ محققین کو متعدد تصویروں تک پہنچنے کے لیے مشکل چڑھائی چڑھنی پڑی۔
جرنل آف اینتھروپولوجیکل آرکیالوجی میں شائع ہونے والی نئی تحقیق کے مطابق چٹان پر بنائی گئی یہ تصویریں ہزاروں سال تک قدیم دور کے لوگوں کے لیے ممکنہ طور پر عظیم گیلری رہیں۔ یہ تصاویر ایمازون کے جنگل میں رہنے والے لوگوں کی کئی نسلوں کی رہنمائی کرنے والی شاندار دیومالائی داستانوں کو بیان کرتی ہیں۔
یونیورسٹی آف ایکسٹر سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے شریک مصنف مارک رابنسن کا کہنا ہے کہ ’پتھر پر بنی ان تصاویر میں ساڑھے 12 ہزار سال قبل مغربی ایمازونیا میں انسانوں کی موجودگی ابتدائی شواہد پائے جاتے ہیں۔‘
محققین نے قریبی مقامات سے برآمد ہونے والے جانوروں کی باقیات کا جائزہ لیا اور ان کا چٹان پر بنی تصویروں میں نظر آنے والے جانوروں کے ساتھ موازنہ کیا۔
سائنس دانوں نے خاص طور پر چھ پینلوں کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ ان پینلوں میں 40 میٹر بلند اور 10 میٹر تک چوڑا پینل بھی شامل ہے جس پر ایک ہزار سے زیادہ تصاویر بنی ہوئی ہیں۔ محققین نے 60 مربع میٹر کے ایک چھوٹے پینل کا بھی جائزہ لیا جس پر بنی سرخ رنگ سے بنی 244 تصاویر بہت اچھی حالت میں تھیں۔
محققین نے ڈرونز اور روائتی فوٹوگرافی سے کام لیتے ہوئے پتھر پر بنی 32 سو سے زیادہ تصاویر کو دستاویزی شکل دی۔ ان میں سے زیادہ تر تصویریں جانوروں کی ہیں۔ مثال کے طور پر ہرن، پرندے، بکرے، چھپکلیاں، کچھوے اور سؤر۔
محققین نے دیکھا کہ ایمازون کے قدیم باشندے مختلف قسم کی خوراک کھاتے تھے جس میں مچھلی، چھوٹے بڑے ممالیہ اور رینگنے والے جانور بشمول کچھوے، سانپ اور مگرمچھ شامل ہیں۔
اگرچہ قدیم دور کی باقیات میں مچھلیاں وافر مقدار میں پائی گئیں لیکن تصویروں میں ان کی ظاہری شکل صرف دو پینلز تک محدود رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چونکہ جانوروں کی ہڈیوں کی لمبائی چوڑائی راک آرٹ میں جانوروں سے میل نہیں کھاتی اس لیے سائنس دانوں کو شبہ ہے کہ یہ تصویریں بنانے والوں نے صرف انہیں جانوروں کی تصویریں نہیں بنائی جو انہوں نے کھائے۔
ان تصاویر میں یہ واضح تھا کہ ان میں بڑی جسامت کی بلیاں موجود نہیں حالاں کہ وہ اس علاقے میں شکار کرنے والے بڑے جانور تھیں۔
ڈاکٹر رابنسن کا کہنا تھا کہ ’یہ سیاق و سباق ایمازون کے لوگوں اور جانوروں کے درمیان تعلق کی پیچیدگی ظاہر کرتا ہے۔ یہ جانور خوراک کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ قابل احترام بھی تھے۔ ان جانوروں کو مافوق الفطرت طاقت کا مالک سمجھا جاتا تھا اور رسومات ادا کرنے والے ان کے ساتھ رابطے کے لیے پیچیدہ قسم کی رسوم کا اہتمام کیا کرتے تھے۔‘
انسانی اور حیوانی خصوصیات کو ملانے والی بعض تصاویر حیوانی اور انسانی حالتوں کے درمیان تبدیلی کے پیچیدہ دیومالائی عقیدے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ایسا عقیدہ جو موجودہ جدید دور میں ایمازون کے علاقے میں رہنے لوگوں میں اب بھی پایا جاتا ہے۔
ان تصاویروں سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم لوگ علاقے میں پائے جانے والے مختلف قسم کے قدرتی مسکنوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ مسکنوں میں درختوں والے گھاس کے میدان، سیلابی جنگلات اور دریا شامل ہیں۔
کولمبیا کے شہر میدیین سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے ایک اور مصنف ہیویئر اسیتونو کا کہنا تھا کہ ’وہ خطے کے مختلف مسکنوں کے بارے میں گہری معلومات رکھتے تھے۔ وہ زندہ رہنے کی وسیع حکمت عملی کے طور پر ہر مسکن میں جانوروں کو تلاش کرنے، ان کے شکار اور پودوں کو بطور خوراک استعمال کرنے کے ماہر تھے۔‘
ایکسٹر یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے شریک مصنف ہوسے ایریارتے کے بقول: ’اگرچہ ہمیں یقین نہیں کہ ان تصویروں کا کیا مطلب ہے کہ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے لیے دیومالائی رسومات کی اہمیت کو سمجھنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔‘