سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری یقینی طور پر غیر معمولی خبر تھی لیکن غیر متوقع بالکل نہیں تھی۔
انتہائی ذمہ دار ذرائع بار بار آف دی ریکارڈ گفتگو میں اس بات کو دہرا رہے تھے کہ نو مئی کے منصوبہ سازوں اور اس میں کسی بھی سطح پر ملوث لوگوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔
نو مئی تک تحریک انصاف نے جس طرز کی سیاست کی وہ جماعت کے لیے اتنی نقصان دہ ثابت ہوئی کہ مقبولیت بھی پی ٹی آئی کو کمزور در کمزور ہونے سے نہ بچا سکی۔ کبھی نو مئی کو فالز فلیگ آپریشن کہنا تو کبھی ان واقعات پر (پارٹی کارکنوں کے ملوث ہونے کی شرط پر) معافی مانگنا، کبھی فوج کے خلاف کھل کر مضمون لکھنا، بیانات دینا، تو کبھی ان سے مذاکرات کے لیے بیانات داغ دینا، اس حکمت عملی نے پی ٹی آئی کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔
انہی سطور میں بارہا یہ تحریر کر چکا ہوں کہ تحریک انصاف کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ فوج میں چین آف کمانڈ ہے، وہاں کور کمانڈر کانفرنس میں اہم فیصلوں پر ووٹنگ نہیں ہوتی کہ چھ آٹھ کے فیصلے سے اپنے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو تحویل میں لے لیا جائے۔
فوج میں ایک ہی شخص معنی رکھتا ہے، انہی کا فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے، اسی پر من و عن عمل ہوتا ہے اور اس شخص کو نمبر ون یعنی چیف آف آرمی سٹاف کہا جاتا ہے۔
فوج کے سیاسی کردار کی ہمیشہ سے مخالفت کی ہے، آئین پرست اور جمہوریت پسندوں میں شاید ہی کوئی ہو جو فوج کی سیاسی اور حکومتی معاملات میں مداخلت کو درست گردانے، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان میں فوج کا اپنا ایک کردار رہا ہے، اب بھی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گا۔
اگر یہ کہا جائے کہ فوج پاکستان کا سب سے زیادہ مضبوط اور ڈسپلنڈ ادارہ ہے تو شاید ہی کوئی اس سے انکار کر پائے، تو پھر ایک ڈسپلنڈ اور مضبوط فوج سے ایک سیاسی جماعت کتنا لڑ سکتی ہے؟
وہ بھی وہ سیاسی جماعت جس کی پرورش بچپن سے اسی فوج نے کی، جس کی تمام فالٹ لائنز اسے پتہ ہوں جس کے کندھوں پر چڑھ کر نہ صرف اقتدار میں آئی ہو بلکہ ساڑھے تین برسوں تک پارلیمان کی قانون سازی کے لیے مطلوبہ تعداد تک ایک حاضر سروس کرنل کے ذریعے پوری کی جا رہی ہو۔
تحریک انصاف کو انہی نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی ورنہ نقصان دن بدن بڑھتا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیپلز پارٹی سے سیکھیں جو جنرل ضیا جیسے سخت گیر آمر کے خلاف لڑی، پھانسیاں چومیں، جیالے اتنی بہادری سے کوڑے کھاتے جیسے کوئی کوڑے نہیں مار رہا بلکہ تمغہ دے رہا ہے، لیکن وہ اس حد تک نہیں گئے کہ اپنے سیاسی وجود کو ہی ختم کر ڈالیں۔
وہی پیپلز پارٹی اس کے بعد بار بار اقتدار میں آئی، پھر ایک اور آمر جنرل پرویز مشرف کا مقابلہ کیا اور لیڈر کو کھو دیا لیکن اپنی حکمت عملی کے ذریعے ایک حد سے زیادہ پارٹی کو کمزور نہیں ہونے دیا۔
آج صدر مملکت، چیئرمین سینٹ، دو وزرائے اعلیٰ اور دو گورنر پیپلز پارٹی سے ہیں۔ پی ٹی آئی ابھی تک خطرے کو بھانپ نہیں پا رہی، جنرل فیض حمید کی حراست اور کورٹ مارشل صرف آغاز ہے۔ آئندہ چند ہفتے اور مہینے میری اس بات کو درست ثابت کریں گے کہ حتمی راؤنڈ کا آغاز ہو چکا ہے۔
اب فائنل راؤنڈ میں ظاہر ہے کسی ایک فریق کی ہار اور ایک کی جیت ہوتی ہے اور اکھاڑے میں جیت اسی کی ہوتی ہے جس کے پاس طاقت ہو۔
نو مئی سے لے کر آج تک (جن میں آٹھ فروری کے انتخابات بھی شامل کر لیں) پی ٹی آئی نے اپنی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے بہت بڑی بڑی مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا۔
ہر مشکل اور کڑے وقت میں ایسا لگتا کہ اب پارٹی اٹھنے کے قابل نہیں رہی لیکن پھر چند مہینوں بعد پارٹی نے باؤنس بیک کیا، اگرچہ ماضی والی تحریک انصاف کی طرح نہیں، لیکن اب کی بار فائنل راؤنڈ میں جنرل فیض کی حراست کی صورت میں ناک آؤٹ پنچ تو لگ چکا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی واپس اٹھ کر کچھ کر پاتی ہے یا ریفری مخالف پہلوان کی جیت کی سیٹی بجا کر حتمی راؤنڈ کے خاتمے کااعلان کر دے۔
سیاسی جماعتیں ختم نہیں ہوتیں لیکن چند سالوں کے لیے اتنی کمزور ہو جاتی ہیں کہ کچھ زیادہ کر نہیں پاتیں۔ چند سال بعد شاید ایک اور میچ ہو جس میں کئی راؤنڈز ہوں گے لیکن فی الحال ریفری انتظار میں ہے کہ اکھاڑے میں ناک آؤٹ پنچ کھانے والا کھلاڑی کیا کرے گا۔
کھڑا ہو کر رنگ میں آ کے جوابی وار کرے گا یا لیٹے رہنے کو ترجیح دے کر موجودہ فائنل راؤنڈ میں شکست تسلیم کر کے اگلے میچ کا انتظار کرے گا، جس میں کئی برس لگ جائیں گے۔
نو مئی 2023 کو ’سیاست کا فائنل راؤنڈ شروع ہو چکا‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم کا ایک پیرا دوبارہ شیئر کیے دیتا ہوں۔
’خان صاحب سمجھتے ہیں کہ ان پر اسٹیبلشمنٹ کراس لگا چکی ہے تو ان سے سوال یہ بنتا ہے کہ جب حاضر سروس افسران سے علی الاعلان کھلی جنگ شروع کر دی جائے، ان پر قتل کی سازش کے الزامات لگا دیے جائیں، لندن اور امریکہ میں ان کی تصاویر پر جوتے برسائے جائیں، سوشل میڈیا پر حافظ اور حاجی کے سابقے اور لاحقے لگا کر ایسے بےہودہ ٹرینڈز شروع کر دیے جائیں تو کیا ریاست ستو پی کر سوتی رہے گی؟‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔