کیا ذہانت، غربت، اور محبت مل کر مادیت کے فرعون کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ شاید آج تک محبت اور ذہانت نے مادیت سے مقابلہ ہی کیا ہے اسی لیے عشق کا مقام بڑا ہے۔
ڈراما ’ہم دونوں‘ ایسی ہی رومانی کہانی ہے جس میں ہیرو اور ہیروئین دو ذہین انسان بھی ہیں۔ یونیورسٹی کے گولڈ میڈیلسٹ ہیں۔ ذہین انسانوں کا عشق بھی بڑا ہی ظالم ہوتا ہے اس لیے ڈرامے کے آغاز میں ہی کہانی ظالم ہو گئی ہے۔
عشق کی کہانی انجام میں ہجر بنتی ہے. یہاں انفرادیت یہ ہے کہ ہجر سے وصل کی طرف کا سفر ہیرو نے خود انجام انتخاب کیا ہے۔ اس کے پاس یہ راہ تھی کہ وفا اس کے ساتھ نکاح کرنے کو تیار تھی مگر اس نے اسے وعدہ کیا کہ وہ سب کے سامنے اس کو اس کی شان کے مطابق بیاہ کر لے جائے گا۔
ذہین انسان بھی کبھی کبھی جذبات کے سامنے ہار جاتا ہے۔ جذباتی ہو کراسد اعجاز درانی وفا کے والد کو بتانے چلا جاتا ہے کہ اسے دبئی میں نوکری مل گئی ہے۔ یہی ایک جذباتی لمحہ اس کو وفا سے دور لے جاتا ہے۔
اعجاز درانی موقعے کا فائدہ اٹھاتا ہے اور اسے اغوا کروا لیتا ہے۔ وہ دبئی نہیں جا پاتا۔ اس کے تمام ڈاکو مینٹس اغوا کار ضائع کر دیتے ہیں۔ موبائل بھی لے لیتے ہیں۔ اسے باندھ کر اس پہ شدید تشدد بھی کیا جاتا ہے۔
جب دو دن تک اس کے گھر والوں کو اس کی خبر نہیں ملتی تو وہ تلاش میں نکلتے ہیں۔ وفا کو پہلے تو اعجاز درانی یہ بتاتا ہے کہ وہ میرے سامنے میری بیٹی کو برا بھلا کہہ کر گیا ہے۔ پھر اعتراف جرم بھی کر لیتا ہے کہ اس نے اسد کو اغوا کروایا ہے کہ اس نے مجھے للکارا تھا کہ وفا کی شادی صرف اس سے ہو گی۔
وفا گھر چھوڑ جاتی ہے۔ اسد کے گھرچلی جاتی ہے۔ اس کے گھر والوں کو سب کچھ سچ بتا دیتی ہے۔ اولاد کے بدلے اولاد کی جذباتی پیش کش بھی کر دیتی ہے مگر اکرام احمد اس کو اس کے گھر چھوڑ کر آتا ہے۔
اعجاز درانی سے اپنے بیٹےکی رہائی کی درخواست بھی کرتا ہے۔ اعجاز درانی موقع کا فائدہ اٹھا کر اکرام احمد کو اپنے اور اس کے درمیان فرق کو لے کر اس کی عزت کی دھجیاں اڑا دیتا ہے۔
اسد کو اس کی اوقات میں رہنے کی قیمت پہ اسد کے واپس آ جانے کا وعدہ بھی کر لیتا ہے۔
اسد کوتشویش ناک حالت میں ایک گاڑی ہسپتال کے باہر پھینک جاتی ہے۔
کہانی نے اب موت سے زندگی کا سفر کرنا ہے جیسے کوکھ میں قطرہ انسان کا سفر کرتا ہے۔
مناظر بتا رہے ہیں وفا کی محبت اسد کو زندگی کے قدم پہ ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھائے گی۔ شادی بھی ہو گی۔ اولاد بھی ہو گی اور اسد اعجاز درانی کے برابر بھی آ جائے گا۔ مگر یہ سب کیسے ہو گا؟ یہ دیکھنے کے لیے ہمیں سارا ڈراما دیکھنا پڑے گا۔
ڈرامے میں چھا جانے والی شدت و کیفیت ہے جسے ہم آج کے دور میں ’اوورا‘ کہتے ہیں۔ ڈرامے کا حالہ بہت روشن، بہت مضبوط ہے۔ چاند صاف دکھائی دے رہا ہے۔
ضروری نہیں کہ ایک اچھا انسان، ایک اچھا باپ، ایک اچھا کردار بھی ہو۔ اعجاز درانی اپنی اکلوتی بیٹی کے لیے ایک اچھا باپ ہے۔ اپنے دفتر کے ملازمین کے لیے ایک اچھا افسر بھی ہے مگر اپنے مقابل آنے والے کے لیے وہ وہی فرعون ہے جو ہوا کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اعجازدرانی اپنی بیٹی کی شادی شیروز سے کرنا چاہتا ہے جو اس کے برابر کا بزنس مین ہے۔ اس کی انا کو یہ گوارا ہی نہیں کہ اس کے ملازم کا بیٹا اس کا داماد بنے۔ اسد کے ساتھ اس کا کوئی کیمسٹری کلیش ہے جو اسد کی موجودگی یا سوچ میں بہت طاقت سے ردعمل دیتا ہے۔ یہ طاقت بھی یک طرفہ نہیں ہوتی دوسری طرف اسد کے اندر بھی اتنی ہی شدت سے یہ شخصی کمیمسٹری کلیش اعجاز دورانی کے لیے ہے۔
جب دو تلواریں ایک میان میں آجائیں تو جنگ خود بخود شروع ہو جاتی ہے۔
شیروز ہر طرح اعجاز درانی کا ہم راز ہے۔ وہ وفا سے شادی کرنا چاہتا جبکہ یہاں تکونی محبت کی داستان بھی نم مٹی میں پھوٹ چکی ہے۔ وفا کی بہن سنبل شیروز کو چاہتی ہے۔ سنبل کی ایک خاموش یک طرفہ، ایک بے بس محبت۔
ابھی ڈرامے میں موسیٰ اور فرعونیت کی بڑی لمبی جنگ ہونا باقی ہے۔
اسد کا موبائل اغوا کرنے والوں نے لے لیا تھا۔ آج کے دور کے اس سچ میں سے بھی ایک سائبر کرائم کی کہانی نے جنم لینا ہے جو آج کے دور کے عشق کو تصویر کر دیتا ہے۔
کچھ کمزور لمحے طاقت ور سچ میں بدل جاتے ہیں۔
مصنفہ بی گل ہیں۔ ڈائریکٹر عابس ر ضا۔ پروڈیوسر مومینہ درید ہیں۔ ہم ٹی سے یہ ڈراما نشر ہو رہا ہے۔ اس کی مقبولیت ملینز میں ہے جو مزید بڑھے گی کہ محبت خوشبو کی طرح ہوتی ہے اور عشق و مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ جذبات بہت طاقت ور ہوتے ہیں۔
مقبولیت میں کاسٹ اور آواز کا بہت بڑا ساتھ ہے۔ مرکزی کردار اذان سمیع خان کر رہے ہیں اور گیت کی سحرانگیز آواز بھی انہی کی ہے۔
کنزا ہاشمی وفا کا کردار کر رہی ہیں۔ نعمان اعجاز، زاویار نعمان اعجاز کاسٹ کو دیکھا جائے تو اس کو موروثی کاسٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔
موسیقی بہت عمدہ ہے۔ اذان سمیع خان کی آواز میں اپنے والد عدنان سمیع خان کی آواز کی اٹھان ہے اور ادا کاری میں والدہ زیبا بختیار کی جھلک ہے۔
ڈراما غالب کہ شعر کی تفسیر جیسا ہے:
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے