پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے ضلع نیلم میں 30 کنال اراضی گذشتہ دنوں دفاعی مقاصد کے لیے مختص کرنے پر مقامی آبادی نے احتجاج کی دھمکی دی ہے۔
محکمہ جنگلات کے مورخہ 30 جون 2022 کے نوٹیفکیشن کے مطابق جنگلات کے رقبہ میں سے 10 کنال نوری ٹاپ، 10 کنال جبہ لیک، پانچ کنال جبہ بہک اور پانچ کنال سرگن گاوں میں پاکستان فوج کو الاٹ کی گئی ہے۔
تقریباً دو سال کے بعد اس نوٹیفکیشن کے منظر عام پر آنے پر پہلے مقامی آبادی کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ ان زمینوں کو ’گرین ٹورزم کمپنی‘ کو دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے نیلم سے منتخب ممبر اسمبلی اور سابق سپیکر شاہ غلام قادر نے بھی بیان دیا اور کہا کہ انہیں گرین ٹورزم کو اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے آگاہ کیا جائے۔
اس مطالبے پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی بحث کی گئی۔ تاہم اس سارے معاملے پر محکمہ جنگلات ضلع نیلم کی جانب سے ایک وضاحتی پریس ریلیز جاری کی گئی۔ جون 2024 میں جاری کی گئی اس وضاحت میں محکمہ جنگلات کی جانب سے لکھا گیا کہ نیلم ویلی کی عوام کی جانب سے سوشل میڈیا و دیگر پلیٹ فارمز پر نوری ٹاپ زمین کی گرین ٹورزم کو الاٹمنٹ کے معاملہ پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ اراضی گرین ٹورزم کمپنی کو الاٹ کرنے میں کوئی صداقت نہیں۔
نوری ٹاپ و دیگر پانچ جگہوں پر 30 کنال اراضی فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے 2022 میں الاٹ کی گئی تھی جس کے بدلے میں 30 کنال رقبہ خالصہ سرکار بمقام بگوائی سرگن محکمہ جنگلات کو منتقل کر دیا گیا ہے۔
تاہم بعد ازاں فوج کی جانب سے اس الاٹ شدہ رقبہ کی حد بندی اور اس پر تعمیرات شروع کرنے کے بعد سرگن کی مقامی آبادی سمیت ضلع کے دیگر حصوں سے بھی اس حوالے سے احتجاج کیا گیا۔
وادی نیلم سرگن کے رہائشی جہانگیر احمد نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یونین کونسل سرگن ویلی اس سے پہلے بھی تین بار ڈیزاسٹر کا شکار ہو چکی ہے۔ وہاں پہلے کسمپرسی کی حالت ہے اور ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں رہنے والوں میں سے 90 فیصد کا انحصار سیاحت پر ہے۔
’یہاں کے لوگ مال مویشی رکھتے ہیں جنہیں لے کر بہکوں (پہاڑوں پر مویشی کی چراگاہ) جاتے تھے جہاں اب فوج تعمیرات کر رہی ہے جس سے لوگ متاثر ہوں گے۔ وہاں جانے یا گزرنے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے پاس سیاحت کے علاوہ اور کوئی ذریعہ معاش بھی نہیں ہے۔ اب اگر فوج وہاں تعمیرات کرتی ہے تو یہ دونوں پیشے جن سے ہمارے ذریعہ معاش جڑے ہیں متاثر ہوں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاملے پر نیلم ویلی کے ہی رہائشی خلیل زمان کا کہنا ہے کہ یہ ’30 کنال رقبہ دفاعی مقاصد کے لیے فوج کو الاٹ کیا گیا ہے جبکہ اس کے قرب و جوار میں 17 جھیلیں آتی ہیں اور یہ ایک سیاحتی مقام ہے جہاں دفاعی مقاصد کے لیے رقبہ الاٹ کرنے کی کوئی صورت نہیں بنتی۔
’اس سے پہلے 2020 میں ہوئے سانحہ سرگن میں گلیشیر کی زد میں آکر سرگن کے 60 افراد جان سے چلے گئے تھے اور لاتعداد مکانات تباہ ہوئے۔ جو خاندان اس سانحہ میں بےگھر ہوئے وہ اس وقت تک دربدر ہیں۔ انہیں حکومت نے کہیں بھی جگہ الاٹ نہیں کی۔ اگر یہاں کی مقامی آبادی کے لیے جگہ الاٹ نہیں کی جاسکتی تو فوج کو کیوں کر الاٹ کی گئی۔‘
خلیل زمان کا اصرار تھا کہ جو جگہ فوج کو الاٹ کی گئی ہے وہ مویشیوں کی تین سو سالہ پرانی چراگاہیں ہیں۔ ’ہم موسم کے حساب سے مال مویشی یہاں لے جاتے ہیں۔ اس جگہ فوج کی تعمیرات سے ہماری چراگاہیں اور گذرگاہیں متاثر ہوں گی۔‘
اس تنازع پر انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیکرٹری جنگلات انصر یعقوب کی رائے لی ہے۔ انصر یعقوب کا کہنا ہے کہ ’محکمہ جنگلات نے اپنی پالیسی 2017 کے ذریعے اپنا رقبہ فوج کو الاٹ کیا ہے۔ ’یہ ایک معمول کا کام ہے۔ 1947 سے فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے رقبہ الاٹ کیا جاتا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جنگلات الاٹمنٹ پالیسی 2017 کے مطابق حکومت جب جنگلات سے کوئی رقبہ لیتی ہے یا تو وہ اس رقبہ کی قیمت محکمے کو ادا کرتی ہے یا اس کے بدلے میں اتنا ہی رقبہ محکمے کو دیا جاتا ہے۔ ’فوج کو الاٹ کیے گئے رقبہ کے بدلے حکومت جنگلات کو خالصہ سرکار سے 30 کنال خسرہ 02 رقبہ سرگن بکوائی میں الاٹ کر چکی ہے۔‘
انصر یعقوب نے بتایا کہ محکمہ جنگلات نے حکومت کے حکم پر فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے 30 کنال رقبہ الاٹ کیا ہے لہذا فوج الاٹ شدہ رقبہ پر تعمیرات کرنے کی قانونی طور پر مجاز ہے۔‘
انڈیپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے ایوان صدر سے اس معاملہ پر رائے لینے کی کوشش کی ہے لیکن صدر ریاست کے ملک سے باہر ہونے پر ایسا ممکن نہیں ہو پایا جبکہ وزیراعظم سیکرٹریٹ سے رابطہ پر اس حوالے جواب نہیں دیا گیا۔ ایس ایم بی آر کشمیر آفس کے مطابق یہ معاملہ مظفرآباد آفس کے زیر کار نہیں ہے۔
البتہ اس معاملہ پر ملٹری اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا موقف تھا کہ فوج اراضی دفاعی مقاصد کے لیے حاصل کرتی رہتی ہے جہاں سکیورٹی کے مقصد سے عسکری یونٹ قیام کرتی ہیں۔
’دشمن پر نظر رکھتے ہوئے دشمن کی کسی بھی کارروائی کا فوری اور بروقت جواب دینے اور دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے یہ زمین حاصل کی جاتی ہے اور زمین تمام قانونی ضابطوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حاصل کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔‘