پاکستانی گاڑیوں کے نام: بلیلا سے انڈہ شیراڈ تک

سوزوکی ہائی روف اچھی خاصی معتبر گاڑی تھی، جس کام کے لیے آج کل ’ڈالہ‘ مشہور ہے پہلے وقتوں میں فلموں کے ولن اور عام زندگی کے شرفا اسی سے وہی کام لیا کرتے تھے، پھر آٹو انڈسٹری ترقی کر گئی، پیسہ آ گیا، تو ہائی روف ڈبہ کہلانے لگی اور وہ رُتبہ ڈالے کو مل گیا

غالب نے کہا تھا مغل بچے جس پہ مرتے ہیں اسے مار کے رکھتے ہیں، ہم لوگ جس گاڑی سے پیار کرتے ہیں اسے نام بگاڑ کے رکھتے ہیں۔

سب سے پہلا نام جو کسی گاڑی کا بگڑا ہوا میں نے سنا تھا وہ بلیلا تھا۔ ٹویوٹا کرونا تھی، ستر کے پاس کا ماڈل تھا، فیروزی اور گہرے نیلے رنگ میں کلاسیکل سن زیرو والی پینٹ سکیم تھی لیکن وہ بے چاری گاڑی چلنے سے اکثر معذور رہتی تھی۔

ابا کے ایک دوست نے خریدی، جب ان کے یہاں ہم لوگ گئے تو بچوں نے طنزاً بتایا کہ پاپا نے بلیلا لے لی ہے۔ وہ بچے مجھ سے بڑے تھے اس لیے بہت بعد میں جا کے مجھے علم ہوا کہ بلیلا گاڑی کا نام نہیں بلکہ پی ٹی وی کے کسی ڈرامے میں ایسی ہی ایک گاڑی کو کہا گیا تھا۔

کرونا کا وہ ماڈل لیکن تھا بڑا شاندار، پورا کروم فرنٹ، اندر اگلی سیٹ کی شکل میں یہ لمبا صوفہ، بھلے چار بندے بیٹھ جائیں آگے، گیئر تو سٹیئرنگ کے ساتھ موجود سٹک سے ہی لگنا تھا۔ نئی گاڑیوں میں اگلی سیٹ تقسیم کر کے لمبے صوفے کو دو کرسیوں میں بدل دینا خدا جانے کس حکیم کا آئیڈیا تھا لیکن یار، لمبے صوفے کا وہ رومانس، اُف ۔۔۔ مجھے ساری زندگی ایسی کسی گاڑی کی تلاش رہے گی۔

اگلا نام صابن دانی تھا، یہ اس وقت فاکسی کو کہا کرتے تھے۔ بعد میں ہر چھوٹی گاڑی کا نام صابن دانی پڑ گیا۔ پاکستان امریکی گاڑیوں سے جرمن اور جرمن سے جاپان میڈ پہ شفٹ ہو چکا تھا لیکن فاکسی 80 کی دہائی کے شروع تک شوقین سے زیادہ خاندانی لوگ رکھا کرتے تھے۔ صابن دانی کی ویسے کلاسک شکل وہی کار تھی۔ قریشی کے ماموں جب کبھی لاہور سے بمعہ اہل و عیال آتے تو گلی کے نکڑ پہ پیلے رنگ کا وہ تحفہ دیکھنے ہم سب بچے دن میں کئی بار جایا کرتے تھے۔

اس زمانے میں لوگ جب ولایت سے واپس آتے تو خاندان بھر کے بچوں میں ڈنکیاں بٹا کرتی تھیں۔ آسان تحفہ تھا، بڑی سی پیکنگ میں ایک چپٹا ڈبہ ہوتا، سب ڈبے کے اردگرد بیٹھ جاتے، ایک ایک کر کے سب بچوں کو ڈنکی ملتی جاتی اور ہر کسی کو دوسرے کی ڈنکی آف کورس زیادہ پسند آتی، للچائی نظروں کا یہ سیشن ختم ہوتا تو ڈنکیاں دھاگوں سے باندھ کے ہم سب گلی میں ان کی (یا پتہ نہیں خود اپنی) ریس لگاتے۔ تو صابن دانی کے بعد ایکسٹرا چھوٹی گاڑیوں کا نام ڈنکی پڑا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ مثلاً آج کل سوزوکی آلٹو ڈنکی کے رتبے پر فائز ہے۔

سوزوکی ہائی روف اچھی خاصی معتبر گاڑی تھی، جس کام کے لیے آج کل ’ڈالہ‘ مشہور ہے پہلے وقتوں میں فلموں کے ولن اور عام زندگی کے شرفا اسی سے وہی کام لیا کرتے تھے، پھر پاکستان کی آٹو انڈسٹری ترقی کر گئی، پیسہ آ گیا، تو ہائی روف ڈبہ کہلانے لگی اور سکون سے سکول کے بچوں کو لانے لے جانے والی وین میں تبدیل ہو گئی، اور ٹویوٹا ہائی لکس ایسے تمام اداروں کی اولین ترجیح بن گئی جنہیں عوام سے ڈائریکٹ رابطہ رکھنا ہوتا تھا۔ ہائی لکس کو ڈالے کا نام کس نے دیا یہ بات معلوم نہیں لیکن اب سنگل کیبن سے لے کر مہنگی ترین ریوو بلکہ ریپٹر تک، ہر ایسی گاڑی ہمارے لیے ڈالہ ہے، اور قابل صد احترام ہے۔ ڈبہ نیا اس وقت بیس لاکھ کا ہے، پاکستان کا سستا ترین بے زبان جانور ہے۔

ڈائی ہاٹسو شیرڈ 1987 تک دیسی برگر بچوں کی لاڈلی ترین گاڑی تھی، ٹربو انجن کا نام اس زمانے کی مڈل کلاس نے پہلی بار اسی گاڑی کے ساتھ سنا، زیرو سے ہنڈرڈ گیارہ سیکنڈ میں جانا بھی اس گاڑی کے بعد ایک ترجیح بنتی نظر آئی اور جن بچوں کے ابا افورڈ کر سکتے تھے وہ اسی گاڑی پہ یونیورسٹی ہاسٹلوں کے باہر پھیرے لگاتے پائے جاتے، ڈیٹوماسو ایسے تھا جیسے اب لمبرگینی ہے، اب ویسے بھی خواب اوقات سے باہر دیکھنے کا چلن ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیر، پھر ’انڈہ شیراڈ‘ آ گئی۔ انڈہ شیرڈ 93 تک آئی، اسے بطور فیملی کار متعارف کروایا گیا تھا لیکن تب سے آج تک موڈیفیکیشن اور سڑکوں پہ ریس وغیرہ لگانے کے لیے بہترین بجٹ کار سمجھی جاتی ہے۔ اسے اپنی گول مول ایروڈائنمک شکل کی وجہ سے انڈہ کہا جاتا تھا۔

انڈہ شیرڈ سے مجھے ہیونڈائی کی سینٹرو یاد آ گئی، اللہ بخشے کیا شاندار گاڑی تھی۔ 1998 کے بعد پاکستان کی سڑکوں پہ ایک عجیب و غریب ڈورے مون قسم کی گاڑی دیکھی گئی۔ پشت سے کافی اونچا ہونے کی وجہ سے اسے ’امیروں کا رکشا‘ نام دیا گیا۔ جب تک اس گاڑی کو استعمال نہیں کیا مجھے خود وہ اود بلاؤ قسم کی چیز لگتی تھی لیکن ایک مرتبہ آپ وہ گاڑی استعمال کر لیں تو اس کی لامحدود افادیت کے قائل ہو جائیں گے۔ اس کے اندر بہت زیادہ جگہ تھی، ہر چیز کے لیے۔ ایک مرتبہ پوری میز اس کے اندر ڈال کے میں اور بھائی سکون سے گھر لے آئے تھے۔ سینٹرو جنریشن ون کی اس گاڑی میں سب سے بڑی خوبی اس کی فیوچرسٹک شکل تھی، آپ آج اس گاڑی کو خریدیں، ڈینٹ پینٹ وغیرہ کروا کے تیار کریں اور کسی بھی نئی جاپانی گاڑی کے ساتھ کھڑا کر دیں، جو نہیں جانتا وہ اسے 25 سال پرانا ماڈل نہیں کہہ سکتا۔

جی جی جی، جو کچھ آپ مس کر رہے ہیں وہ اس بلاگ کی اگلی قسط میں آئے گا جیسے دنبہ، چوہا شیپ، باس، بسنتی ۔۔۔ اگلے ہفتے دوبارہ ملتے ہیں، تب تک کچھ ایسے نام اگر آپ کے ذہن میں ہیں تو بتایے، انہیں بھی شامل کر لیں گے۔ شکریہ۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ