بابر اعظم کا صفر اور ایک بڑی اننگز کا انتظار

راولپنڈی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں بابر اعظم کے صفر پر آؤٹ ہونے پر زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ کرکٹ میں معمول کی بات ہے جس کا سامنا ہر بیٹسمین کرتا ہے۔

پاکستانی کپتان بابر اعظم 11 ستمبر 2023 کو ایشیا کپ کے ایک میچ میں انڈیا کے خلاف بیٹنگ کرتے ہوئے ایک شاٹ کھیل رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر سننے کے لیے کلک کریں

صفر اگر کسی دوسرے ہندسے کے ساتھ مل جائے تو بہتر شکل میں  نظر آتا ہے لیکن اگر اسے اکیلا دیکھیں تو یہ مایوسی اور ناکامی کا تاثر دے رہا ہوتا  ہے خاص طور پر کرکٹ میں۔

دنیا کا بڑے سے بڑا بیٹسمین ایسا نہیں ہے جس نے اپنے کیریئر میں صفر کی خفت برداشت نہ کی ہو۔

اس تناظر میں راولپنڈی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں بابر اعظم کے صفر پر آؤٹ ہونے پر زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ کرکٹ میں معمول کی بات ہے جس کا سامنا ہر بیٹسمین کرتا ہے۔

پھر یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ اس صفر سے پہلے بابر اعظم آخری مرتبہ صفر پر آؤٹ اپریل 2021 میں زمبابوے کے خلاف ہرارے میں ہوئے تھے۔ یعنی ان دونوں صفروں  کے درمیان انہوں نے 36 اننگز کھیلیں، جن میں انہوں نے چار سینچریاں اور 10 نصف سنچریاں بنائیں، جس سے ان کی مستقل مزاجی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

تاہم ان 36 اننگز میں سے آخری 13 اننگز ایسی ہیں جن میں وہ ایک بھی نصف سینچری نہیں بنا سکے ہیں اور یہی تشویش کی بات بھی ہے کہ بابر اعظم  پچھلے کچھ عرصے سے ناکامی کے دائرے میں گھوم رہے ہیں اور اس سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بابر اعظم  نے آخری ٹیسٹ سینچری دسمبر 2022 میں نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں سکور کی تھی اور اس وقت  ٹیسٹ کرکٹ میں یہ  ان کا سب سے مایوس کن دور چل رہا ہے۔

اس سے قبل 2016 میں صرف سات  لگاتار اننگز ایسی تھیں جن میں وہ کوئی نصف سنچری سکور نہیں کرسکے تھے یا پھر 2017  میں جب وہ لگاتار 10 اننگز میں صرف دو نصف سینچریاں بنانے میں کامیاب ہوسکے تھے۔

بابر اعظم صرف ٹیسٹ کرکٹ ہی نہیں بلکہ ون ڈے انٹرنیشنل اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں بھی کچھ عرصے سے بجھے بجھے سے رہے ہیں۔

ان  کے لیے انڈیا میں منعقدہ 50 اوورز کا ورلڈ کپ بحیثیت کپتان کامیاب ثابت نہ ہوسکا اور نہ ہی امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں منعقدہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیا میں اگرچہ انہوں نے چار نصف سنچریاں بنائی تھیں لیکن سوائے نیوزی لینڈ  کے دیگر تین نصف سنچریاں جو انڈیا، افغانستان اور جنوبی افریقہ کے خلاف تھیں کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑ سکی تھیں اور یہ تینوں میچز وہ تھے جو پاکستان ہارا تھا۔

بابر اعظم جیسے بڑے بیٹسمین زیادہ دیر تک خود کو بڑے سکور سے دور نہیں رکھتے۔ 

چند اننگز کی ناکامیوں کے بعد وہ ایک بڑی اننگز کھیل کر دوبارہ خود کو نارمل دھارے میں لے آتے ہیں اور اپنا سفر دوبارہ اعتماد سے شروع کر دیتے ہیں۔

یہی امید اب  بابر اعظم سے  بھی قائم  ہے کہ وہ بھی دیر نہیں لگائیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ راولپنڈی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں ہی ہمیں بابر اعظم کے کوور ڈرائیوز سے مزین خوبصورت بیٹنگ دیکھنے کو مل جائے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے یہ سیزن خاصہ مصروف ہے جو ابھی ریڈ بال کے ساتھ شروع ہوا ہے، جس میں اسے بنگلہ دیش کے خلاف دو، انگلینڈ کے خلاف تین، ویسٹ انڈیز کے خلاف دو اور جنوبی افریقہ کے خلاف دو ٹیسٹ کھیلنے ہیں۔

اس لحاظ سے یہ بابر اعظم کے لیے بھی سیزن بڑی اہمیت کا حامل ہے اور جب وائٹ بال کرکٹ  کی باری آئے گی تو اس وقت دیکھنا ہوگا کہ بابر اعظم اپنے کھیل میں کیا تبدیلی لاتے ہیں کیونکہ ان کے معترضین کو ان پر یہی اعتراض رہا ہے کہ ان کی بیٹنگ خصوصاً سٹرائیک ریٹ عصر حاضر کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔

ابھی یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ وائٹ بال کرکٹ میں ان کی کپتانی بھی برقرار رہتی ہے یا نہیں؟

نوجوان، باصلاحیت بیٹسمین صائم ایوب کی راولپنڈی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں نصف سنچری پر سب سے پہلی مبارک باد تو سلیکٹرز، کپتان اور ہیڈ کوچ کی بنتی ہے، جنہوں نے سڈنی ٹیسٹ میں صفر اور 33  رنز کی معمولی کارکردگی کے باوجود صائم ایوب کو ون ٹیسٹ مین بنانے کے بجائے ایک اور موقع فراہم کیا، ورنہ ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے والوں کی فہرست خاصی لمبی ہے۔

ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کھلاڑیوں کو ان کے ڈیبیو ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد بھی دوسرا موقع مل سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ کھلاڑی قصہ پارینہ بن گئے۔

صائم ایوب کو ڈیبیو ٹیسٹ کے بعد دوبارہ موقع ملنا اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ سڈنی ٹیسٹ کے بعد ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں بھی تواتر سے ناکام ہوتے چلے گئے تھے اور خدشہ تھا کہ ٹی ٹوئنٹی میچوں میں مایوس کن کارکردگی انہیں ٹیسٹ کرکٹ سے بھی باہر کیے جانے کا سبب نہ بن جائے۔

صائم ایوب پر سلیکٹرز اور ٹیم مینیجمنٹ کے اعتماد کے بعد اب ایک اور انتہائی باصلاحیت بیٹسمین  محمد ہریرہ کو مزید انتظار کرنا ہوگا جو ٹیسٹ کرکٹ میں آنے کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں۔ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب انہیں بھی ہم انٹرنیشنل کرکٹ میں دیکھیں گے۔    

جے شاہ اور انٹرنیشنل کرکٹ کا نیا منظر نامہ

انڈین کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری جے شاہ اس سال نومبر میں آئی سی سی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں لیکن آسٹریلیا کے ایک سینیئر صحافی ڈینئل بریٹگ نے سڈنی مارننگ ہیرلڈ میں جو خبر دی ہے اس میں انہوں نے انڈین کرکٹ بورڈ کی مضبوط پوزیشن اور دوسروں کو اپنے اثر ورسوخ سے قابو کرنے کے بارے میں لکھا ہے۔

اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ جے شاہ نے مبینہ طور پر آئی سی سی کے موجودہ چیئرمین نیوزی لینڈ کے گریگ بارکلے کو متنبہ کردیا ہے کہ چونکہ وہ آئی سی سی کا چیئرمین بننا چاہتے ہیں لہذا آپ یہ عہدہ چھوڑ دیں۔

گریگ بارکلے اگرچہ تیسری مدت کے لیے بھی چیئرمین بن سکتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بتا دیا ہے کہ وہ یہ عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔

اس خبر کے مطابق جے شاہ نے اپنی راہ ہموار کرنے کے لیے پہلے ہی انگلینڈ اور آسٹریلیا کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور یہ بات انہوں نے مبینہ طور پر گریگ بارکلے پر بھی واضح کردی ہے کہ ان کے پاس مطلوبہ حمایت موجود ہے۔

اس خبر کے مطابق  جے شاہ کے آئی سی سی کا چیئرمین بننے کے بعد نہ صرف آئی سی سی کے چند کلیدی افسران کا مستقبل بھی غیرواضح  ہے اور آئی سی سی کے دبئی میں ہیڈ کوارٹر رہنے کا بھی۔

جے شاہ ایک ایسے وقت  آئی سی سی کے چیئرمین بننے والے ہیں جب آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی اگلے سال فروری میں پاکستان میں منعقد ہونے والی ہے اور آئی سی سی نے اس کا بجٹ بھی منظور کرلیا ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایونٹ کا جو شیڈول تجویز کیا ہے اس میں انڈین ٹیم کو اپنے تمام میچز لاہور میں کھیلنے ہیں تاکہ اسے ٹریولنگ نہ کرنی پڑے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی اس بارے میں واضح موقف رکھتے ہیں کہ چیمپئنز ٹرافی مکمل طور پر پاکستان میں منعقد ہوگی اور وہ اس کے سوا کوئی دوسری بات نہیں سوچ رہے ہیں۔

مطلب یہ  کہ ان کے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں کہ چیمپئنز ٹرافی میں ہائبرڈ ماڈل کی طرح کا کوئی آپشن رکھا جائے۔

ماضی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے ہائبرڈ ماڈل تجویز کیا تھا جس کے تحت ایشیا کپ میں انڈین ٹیم نے پاکستان آنے کے بجائے سری لنکا میں اپنے تمام میچز کھیلے تھے اور جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کو میزبان ہونے کے باوجود غیرضروری ٹریولنگ کرنی پڑی تھی۔

حالیہ برسوں میں انگلینڈ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور  نیوزی لینڈ  جیسی بڑی ٹیمیں پاکستان آ کر مکمل سکیورٹی اور  پرسکون ماحول میں کرکٹ کھیل چکی ہیں لہذا انڈیا کے پاس انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

دنیا اس بات کی منتظر ہے کہ جے شاہ بھی انڈیا پاکستان کرکٹ کے لیے وہی کردار ادا کریں جو ان کے پیشرو جگ موہن ڈالمیا، راج سنگھ ڈونگر پور اور اندرجیت سنگھ  بندرا ادا کرچکے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر