حال ہی میں صوبہ سندھ جانے کا اتفاق ہوا کیونکہ کچھ میڈیا کے حوالے سے تربیتی پروگرام بھی تھے اور پھر مختلف اضلاع کے پریس کلبز کے ساتھ میٹنگز بھی کرنا تھیں۔ سکھر سے سفر کرتے ہوئے شکارپور کا رخ کرنا تھا اور فیصلہ یہ کیا تھا کہ شکارپور میں صحافیوں سے ملاقاتیں کر کے واپس سکھر کے ہوٹل ہی واپسی کی جائے گی۔
تاہم چند صحافیوں نے اصرار کیا کہ شکارپور سے واپس سکھر کیوں جا رہے ہیں؟ آپ لوگ شکارپور ہی میں ٹھہریں اور وہاں پر بہت شاندار اور صاف ستھرا گیسٹ ہاؤس میں رہنے کا انتظام کرا دیا جائے گا۔ ہم بھی تیار ہو گئے کہ کیوں نہ ادھر ہی ٹھہرا جائے تاکہ جو آدھے یا پونے گھنٹے کا راستہ ہے اس سے بچا جا سکے۔
ابھی اس پر بحث ہی ہو رہی تھی کہ کچھ سینیئر صحافی بھی آ گئے اور باتوں باتوں میں ہم نے شکارپور میں رہنے کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور پھر ہم سے پوچھا کہ آپ لوگ شلوار قمیض لائے ہیں؟ ایک نے کہا کہ ہاں لیکن باقیوں نے کہا کہ نہیں ہم تو پتلونیں اور جینز ہی لے کر آئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ شلوار قمیض ہو یا نہ ہو آپ لوگ صاف پہچانیں جائیں گے کہ آپ مقامی نہیں اور باہر سے آئے ہیں، جو آپ کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ لوگ دن دن ہی میں تربیتی پروگرام اور ملاقاتوں کو سمیٹیں اور واپس سکھر پہنچیں۔
اب اگر شکارپور کا یہ حال ہے تو پھر کندھکوٹ بھی جانا ہے تو وہاں کے حالات کیا ہیں؟ اس پر تو صاف جواب آیا کہ وہاں کا سوچنا بھی نہیں۔
21 ویں صدی میں ڈاکوؤں کا تصور بالکل آج سے 40-50 سال پہلے کی کہانیوں کی طرح لگتا ہے، جن میں ڈاکوؤں کی وجہ سے آس پاس کے گاؤں ہر وقت خوف میں مبتلا رہتے اور ڈاکو جب چاہیں جہاں چاہیں جا کر بھتہ وصول کر سکتے ہیں اور انکار کرنے کی صورت میں جان گنوا بیٹھو۔
ایک بین الاقوامی اخبار کو آج سے دو سال قبل جب یہ سٹوری آئیڈیا دیا کہ سندھ اور پنجاب کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں پر ایک سٹوری کی جائے تو وہ پہلے تو یقین ہی نہیں کر رہے تھے۔ ’یو مِین ٹو سے ٹیررسٹس‘ (تمہارا مطلب ہے دہشت گرد)۔ لیکن جب میں نے ان کو بتایا تو وہ کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ 21 ویں صدی میں ڈاکو ہوں اور وہ بھی کھلے عام پھریں اور کھلے عام لوٹ مار کریں۔
سرکاری محکموں کے ریکارڈ کے مطابق انگریز دور سے دریاؤں کے بہاؤں پر لگائے گئے حفاظتی بندوں کے اندر واقع علاقوں کو ’کچے کا علاقہ‘ کے طور جانا جاتا تھا۔ یہ وہ علاقے ہیں، جہاں دریاؤں میں سطح آب بلند ہونے پر پانی باہر آتا ہے اور مقامی لوگ یہاں موسمی فصلیں اگاتے ہیں۔ کئی لاکھ ایکڑ (300-400 کلومیٹرز پر پھیلے ہوئے) رقبے محکمہ جنگلات اور ریونیو کی ملکیتیں ہیں۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف موجود کچے کا علاقوں میں 80 کی دہائی سے خطرناک ڈاکوؤں کا راج ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب کے دریائے راوی اور چناب کے اطراف واقع کچے کے علاقوں کو بھی جرائم پیشہ افراد چھپنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن سنگین وارداتوں میں ملوث منظم ڈاکو، جو اشتہاری بھی ہیں، دریائے سندھ کے اطراف کچے میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں وقفے وقفے سے آپریشن ہوتے رہے ہیں لیکن ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔ ڈیڑھ سال قبل سندھ اور پنجاب پولیس نے ان علاقوں میں مشترکہ آپریشن شروع کیا، جو اس وقت بھی جاری ہے۔
سندھ ایپکس کمیٹی نے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کئی بار پلان کیے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے یہ پائپ لائن ہی میں رہے۔ گذشتہ سال مارچ میں مراد علی شاہ کی کابینہ نے آپریشن کی منظوری دی۔ پھر اسی سال ستمبر میں نگراں سیٹ اپ نے ایک بڑے آپریشن کا فیصلہ کیا۔ اسی ماہ 28ویں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں فوج اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کی منظوری دی۔
حکام کا کہنا ہے کہ آپریشن نہ کرنے کی ایک وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جدید اسلحہ کی عدم دستیابی ہے۔ سندھ پولیس کے پاس جدید اسلحہ نہیں ہے، جیسا کہ سنائپر رائفلز، گرینیڈ لانچر، مارٹرز، نائٹ ویژن ڈیوائسز اور ڈرونز۔ یہ اسلحہ حاصل کرنے کے لیے نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ کا انتظار وزارت داخلہ سے کیا جا رہا ہے جو ابھی تک نہیں دیا گیا۔
جب تک کوئی مربوط حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی اور ڈاکوؤں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن نہیں کیا جاتا تب تک کندھ کوٹ کے دورے کے متعلق پھر نہ ہی سمجھیں۔