کراچی کے محمود آباد میں واقع مقامی پارسیوں کی رہائشی آبادی ڈنشا بی آواری کالونی میں تقریباً 164 سال قبل تعمیر ہونے والا ’مینار خموشاں‘ یا ’ٹاور آف سائلنس‘ جسے فارسی میں ’دخمہ‘ کہا جاتا ہے، دنیا کے چند مقامات میں سے ایک ہے، جہاں آج بھی زرتشتی (پارسی) مذہب کے مُردوں کی رکھ دیتے ہیں۔
کراچی پارسی انجمن ٹرسٹ فنڈ کے چیئرمین ڈنشا بی آواری کے مطابق کالونی میں واقع مینار خموشاں 1860 میں تعمیر کیا گیا تھا، جس کی حفاظت کے لیے رہائشی کالونی بھی بنائی گئی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفگتو کرتے ہوئے ڈنشا بی آواری نے کہا: ’زرتشت عقیدے کے تحت تدفین کا یہ طریقہ 8000 سال قبل مسیح میں رائج ہوا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ گذشتہ 10 ہزار سالوں سے زرتشت مذہب کے ماننے والے اپنے مُردوں کی تدفین اس طریقے سے کرتے ہیں۔‘
پارسی قدیم ایرانی پیغمبر زرتشت (فارسی میں زرتشت اور یونانی میں زوراسٹر ) کے ماننے والے ہیں۔ جو اپنے پیاروں کی تدفین لاش کو دخمہ پر کھلے آسمان تلے رکھ کر کرتے ہیں۔
مینار خموشاں ایک اونچے پلیٹ فارم پر گول ٹاور نما عمارت ہے، جس کی چھت کھلی ہے۔ اس ٹاور کے اوپر کھلی چھت پر لاش کو رکھا جاتا ہے۔ پہلے مُردے کو گِدھ یا دیگر پرندے کھاتے تھے۔ مگر اب گِدھ نہ ہونے کے باعث سورج کی تپش سے مردے کا جسم گل جاتا ہے۔ دخمہ ایسے شہروں میں تعمیر کیا جاتا ہے جہاں پارسی آباد ہو۔ جہاں دخمہ نہیں ہوتا وہاں پارسی قبرستان ہوتے ہیں، جن میں مردوں کو دفن کیا جاتا ہے۔
ڈنشا بی آواریکے مطابق: ’ہمارے عقیدے کے مطابق اس دنیا کے اہم عناصر زمین، پانی، ہوا، پودوں کو قدرت نے بنایا ہے۔ اس لیے ان کو خراب نہیں کرنا۔ اس لیے ہم مردوں کو دفنانے یا جلانے کے بجائے ٹاور آف سائلنس پر رکھ دیتے ہیں۔ ماضی میں گِدھ اور دیگر پرندے تھوڑے وقت میں مردے کو کھا جاتے تھے۔
’مگر گدھوں کے ناپید ہونے کے بعد اب صرف سورج کی روشنی میں جسم چند روز میں ختم ہو جاتا ہے۔ اس طریقے سے دفنانے کے لیے استعمال ہونے والے کراچی کا یہ مینار خموشاں یا دخمہ دنیا کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے، جہاں آج بھی تدفین کی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس وقت کراچی کے علاوہ ممبئی اور انڈیا میں دو یا تین مقامات پر مینار خموشاں موجود ہیں۔ ایران میں کوئی مینار خموشاں نہیں ہے۔ وہاں پارسی مردوں کو دفناتے ہیں۔‘
ڈنشا بی آواری کے مطابق کسی بھی مذہب کا فرد اپنا مذہب تبدیل کرکے زرتشتی (پارسی) نہیں بن سکتا اور اگر کسی پارسی نے کسی دوسرے مذہب کے فرد کے ساتھ شادی کی تو وہ زرتشت عقیدے سے خارج ہو جاتا ہے۔
ڈنشا بی آواری کا کہنا تھا کہ ’اس وقت پوری دنیا میں زرتشت مذہب کے ماننے والے صرف ایک لاکھ 20 ہزار افراد بچے ہیں، جب کہ کراچی میں اس وقت صرف 750 پارسی ہیں۔ 1950 کی دہائی میں صرف کراچی میں 25 ہزار پارسی آباد تھے۔
’راولپنڈی میں ایک خاندان بھنڈارا فیملی اور لاہور میں 10 سے 15 پارسی، جب کہ کوئٹہ میں دو خاندان موجود ہیں۔ پارسی 100 فیصد پڑھے لکھے ہیں اور یہاں روزگار کے بہتر مواقع نہیں ہیں، اس لیے زیادہ تر پارسی بہتر روزگار کی تلاش میں یورپ، امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک چلے گئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پارسی مذہب کے لوگ جہاں جاتے ہیں، وہاں کی ثقافت کو آسانی سے اپنا لیتے ہیں۔ اس لیے پارسی دنیا میں ہر جگہ آسانی سے سیٹل ہو جاتے ہیں۔‘