نشے کا مسئلہ تو وہیں رہا

نشہ کیا ہے، کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ ایک لمبی بحث ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم سب کو زندگی میں ایک نہ ایک نشئی سے پالا پڑتا ہے، ہم اس وقت کیا کرتے ہیں؟

چھ اپریل 2020 کی اس تصویر میں راولپنڈی میں منشیات کے عادی افراد سڑک کے کنارے موجود ہیں (عامر قریشی/ اے ایف پی)

پچھلے دنوں کراچی کے علاقے کارساز میں ایک خاتون ڈرائیور نے ایک موٹر سائیکل اور دو کاروں کو ٹکر ماری جس سے دو افراد موقعے پہ جان سے چلے گئے اور کئی دوسرے شدید زخمی ہوئے۔

خاتون کا تعلق ایک مشہور خاندان سے ہے۔ سانحے کی شکل اور سمت تبدیل ہو کر امیر غریب کی ازلی لڑائی میں تبدیل ہو گئی، مسئلہ وہیں رہا۔

نشے کی حالت میں گاڑی چلانا ایک جرم ہے اور اس پہ کوئی دو رائے نہیں ہیں۔

گاڑی چلانے والا اپنے ساتھ  دوسروں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے، نشہ ایک لعنت ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب جملے ہم، سنتے رہتے ہیں دہراتے رہتے ہیں۔

ساتھ ہی نشہ کرنے والے پہ، معاشرے پہ اور نشئی کے آس پاس کے لوگوں پہ لعنت ملامت کرتے رہتے ہیں۔

محفلوں میں جس طرح گزیدہ لوگوں کا ذکر ہوتا ہے اسی شدت سے نشے سے متاثرہ خاندانوں کی داستان عبرت بھی سنائی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ نشے سے صرف  مریض ہی نہیں پورا خاندان برباد ہوتا ہے اور یہ تباہی لازمی ہوتی ہے۔

نشہ کرنے والے کا کنبہ باوجود کوشش کے اس بربادی سے بچ نہیں سکتا۔

اپنی گفتگو میں ہم نشے کی مذمت کرتے ہیں، نشئی کے علاج کے ممکنہ طریقے زیر بحث لاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے میں بول بول کے نڈھال ہو جاتے ہیں کہ اگر یہ نشئی ہمارے پلے پڑتا تو ہم اسے ایسے ایسے چٹکیوں میں ٹھیک کر دیتے۔

پھر زندگی میں ایک دن ایسا آتا ہے کہ آپ کے سامنے ایک نشہ کرنے والا آ کھڑا ہوتا ہے کبھی یہ آپ کا کوئی قریبی عزیز ہوتا ہے، کبھی کوئی پڑوسی، بہن کے لیے آیا ہوا رشتہ، آپ کی کمپنی کا سی ای او یا آپ کا پسندیدہ ادیب، شاعر یا کھلاڑی یا خدا محفوظ رکھے آپ خود۔

نشئی کے سر پہ سینگ نہیں ہوتے۔ وہ دیکھنے میں بالکل آپ کے میرے جیسا لگتا ہے، بلکہ کئی نشے تو انسان کو اتنا چست کر دیتے ہیں کہ دیکھنے والے سوچ بھی نہیں سکتے کہ سامنے بیٹھا شخص، خود کس عذاب میں ہے اور جلد یا بدیر خود سے منسلک ہر شخص کو بھی ایک عذاب میں ڈالنے والا ہے۔

نشہ کیا ہے، کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ ایک لمبی بحث ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم سب کو زندگی میں ایک نہ ایک نشئی سے پالا پڑتا ہے، ہم اس وقت کیا کرتے ہیں؟

ہر ایک کا کم سے کم ایک دوست نشئی ہوتا ہے۔ کیا ہم اس کے علاج کا سوچتے ہیں؟ کیا نشے کی بیماری کا کوئی علاج ہے بھی یا نہیں؟ اس نشئی دوست سے ہم دوستی کیوں رکھتے ہیں؟ گاہے گاہے اس کی محفلوں سے محظوظ ہونے کے لیے؟

نشے کے عادی پڑوسی کے گھر میں ہونے والے مسائل کو ملازموں کی زبانی سن کے آگے پھیلانے کے علاوہ ہم  کیا کرتے ہیں؟ کسی لڑکی کا اچانک بہت سماجی فرق سے کوئی رشتہ آ جائے اور دبی آواز میں یہ بھی سنائی دے کہ کبھی کبھار پی لیتا ہے، سگریٹ بھی شاید پکا سگریٹ، پارٹیوں میں لائینیں بھی کھینچ لیتا ہے، امیر گھروں کے بچے اس عمر میں ایڈونچر تو کرتے ہی ہیں مگر شادی کے بعد سدھر جائے گا تو ہم کیا کرتے ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ہمیں اپنے بیٹے، بیٹی، بھائی یا کسی قریبی عزیز کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ وہ اس لت کا شکار ہے تو ہم اس بات کو چھپانے اور اسے آج کل کا ایک معمول کہنے اور بددلی سے علاج کا ارادہ کرنے کے سوا اور کیا کرتے ہیں؟

جب ہمارا سی ای او نشئی ہوتا ہے تو اسے فخر سے ’ورک الکوحلک‘ کہنے کے سوا دوسرا راستہ کون سا ہوتا ہے؟ اپنے پسندیدہ ادیب کی نشیلی گفتگو پہ صدقے واری ہونے اور نشے کے حق میں بتائی ہوئی تاویلوں پہ سر دھنتے ہوئے کبھی ہمیں سڑکوں کے کنارے پڑے نشئی یاد آتے ہیں؟

جب ہمارا محبوب شاعر نشے کی چسکیاں لگاتے ہوئے ہذیان بک رہا ہوتا ہے تو ہم داد دیتے ہیں اور ایک ایک مصرعے پہ ثمرقند اور بخارا کر رہے ہوتے ہیں، اس وقت کبھی سوچتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟

خبر آتی ہے کہ ہمارا پسندیدہ کھلاڑی نشے کے استعمال میں نامزد ہے تو ہم پھیپھڑوں کی پوری طاقت استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ کسی کی سازش ہے ایسا کیسے ممکن ہے؟ یہ تو اتنا بہترین کھلاڑی ہے، نشئی تو ہل بھی نہیں سکتا۔

گھر میں آنے والی پڑوسن جب اپنے چہرے کے نیل یہ کہہ کے چھپاتی ہے کہ گر گئی تھی میز کا کونا لگ گیا تو ہم اس کے شوہر کی آنکھوں کے گرد پڑے حلقوں اور آنکھوں کے نیچے بننے والی تھیلیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ ہی کہتے ہیں گر گئی ہو گی اور اگر شک ہوتا بھی ہے تو یہ ہی سوچتے ہیں گھروں میں کچھ نہ کچھ چلتا ہی رہتا ہے۔

قارئین کرام! ان سب موقعوں پہ، ہم سب نشئیوں کے لیے محفوظ جنتیں فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ ان جنتوں میں کتنے معصوم بچوں، عورتوں اور بے قصور انسانوں پہ زندگی جہنم ہو چکی ہوتی ہے۔

ہم اس وقت تک نہیں سوچتے جب تک کوئی واقعہ، کوئی حادثہ، کوئی نور مقدم،  کوئی خدیجہ، کوئی آمنہ، کوئی سارہ، کوئی بھی لڑکی، لڑکا، انسان جانور، بے رحمی سے ان نشئی درندوں کی بھینٹ نہیں چڑھتا۔

تب ہم پیشہ ور ردالیوں کی طرح بال بکھیر کے سینہ کوبی کرتے ہیں، لفظ سے لفظ جوڑ کے جذباتی بیان دیتے ہیں مذمتی پوسٹیں آگے سے آگے بھیجتے ہیں۔ عین اسی وقت ہمارے چاروں طرف لاکھوں نشئی اپنی محفوظ جنتوں میں خود سے منسلک افراد کی زندگیاں کھا رہے ہوتے ہیں۔

ایسے واقعات ہمارے سماج کی ناکامی ہیں۔ ہم سب کم سے کم ایک نشئی کو ضرور جانتے ہیں، خدارا خلوص نیت سے اس کے گھر والوں اور اس سے منسلک دیگر افراد کو بچانے میں اپنا کردار ادا کیجیے۔

نشے کے علاج کے لیے قائم ایک دواخانے کا موٹو تھا، نشے میں وہ کہیں تنہا نہ رہ جائے۔

یہ انسانی ہمدردی پہ مبنی بظاہر ایک بہت متوازن جملہ تھا مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ نشئی کی تنہائی دور کرتے کرتے ہم بہت سے لوگوں کی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں۔ ان کی بربادی کے بعد بھی تو نشئی تنہا ہوتا ہے۔

ہمیں اس سماجی مسئلے کو حل کرنا ہی ہو گا۔ یہ مصیبت، امیر غریب، ہر گھر پہ دستک دیتی ہے اور سب کو ایک سی اذیت میں مبتلا کرتی ہے۔ اپنے قریب موجود نشیوں کو پہچانیے اور ان کے گھر والوں کو اس عذاب سے محفوظ کرنے اور نشیوں کو معاشرے میں کس شکل میں رکھنا ہے، اس پہ غور کیجیے۔  ڈر یہ ہے کہ نشئی کی تنہائی بانٹتے بانٹتے کہیں اور بہت سے لوگ تنہا نہ رہ جائیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر