ڈاکٹر ایلین سوزا انڈیا کی جنوبی ریاست تامل ناڈو میں بھیڑ والے نجی ہسپتال میں ایک مریض کا معائنہ کر رہی تھیں جب ایک سینیئر ڈاکٹر نے پیچھے سے نازیبا طور پر ان کو چھوا۔
25 سال کی عمر میں اس ہسپتال میں انٹرن شپ شروع کرنے والی ایلین نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میرے پیچھے قطار میں کم از کم 10 لوگوں کے لیے جگہ تھی پھر بھی میرے سینیئر نے سب کے سامنے یہ شرمناک حرکت کی۔‘
ان کے ڈاکٹر والدین جنوبی شہر ویلور کے اسی نامور میڈیکل کالج کے سابق طالب علم تھے۔ ایلین کہتی ہیں کہ انہوں نے تحفظ کے احساس کے ساتھ اس پیشے کا انتخاب کیا لیکن ان کا یہ وہم جلد ہی ٹوٹ گیا کیونکہ انہیں ان سالوں کے دوران کئی مرد ساتھیوں نے جنسی طور پر ہراساں کیا اور ان پر حملے کیے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس سب نے انہیں اپنے اعلیٰ سماجی رتبے کے باوجود ایک عورت کے طور پر اپنی کمزوریوں سے آشنا کیا اور یہ ان خواتین کے لیے اور بھی مشکل ہے جو ان جیسے پس منظر سے تعلق نہیں رکھتیں۔
ایلین سوزا مشرقی شہر کولکتہ میں ایک ٹرینی ڈاکٹر کے حالیہ ریپ اور قتل پر ملک میں غم و غصے سے حوصلہ پاتے ہوئے اپنے آزمائش بھرے تین سالوں کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔
انڈیا میں نو اگست کو ایک ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے خلاف مظاہروں کے دوران رواں ماہ انڈیا میں دس لاکھ سے زیادہ ڈاکٹروں نے ہڑتال کی۔ متاثرہ ڈاکٹر سرکاری ہسپتال آر جی کار میڈیکل کالج میں 36 گھنٹے کی شفٹ میں تقریباً 20 گھنٹے کام کرنے کے بعد ایک لیکچر ہال میں نیند لینے گئی تھیں جہاں ان کو اس بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔
اس واقعے کے بعد سے جونیئر ڈاکٹرز احتجاج میں سڑکوں متاثرہ ڈاکٹر کے لیے انصاف اور ہسپتالوں اور دیگر کام کی جگہوں پر خواتین کے لیے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس واقعے کو انڈیا میں ’می ٹو‘ مہم کی دوسری لہر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ جنوبی انڈیا کی فلمی صنعت سے وابستہ خواتین اداکار اپنے سینیئرز کی جانب سے سسٹمیٹک جنسی استحصال کے بارے میں بات کر رہی ہیں اور حکومت کی طرف سے مقرر کردہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے ان کے الزامات کی تصدیق کی ہے۔
دی انڈپینڈنٹ نے تقریباً ایک درجن خواتین ڈاکٹروں سے انڈیا بھر کے ہسپتالوں میں کام کے دوران اپنے تجربات کے بارے میں بات کی اور سبھی نے ایک ایسے ماحول کے بارے میں بات کی جہاں انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ ان کے نام ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کیے گئے ہیں کیوں کہ سخت انڈین قوانین جنسی جرائم کا شکار ہونے والوں کے نام ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
ایلین سوزا کا کہنا ہے کہ ’میں ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں ایک انٹرن اور ایک جونیئر کنسلٹنٹ کی اسسٹنٹ تھی جب میرے ساتھ ایسا ہوا۔
انہوں نے اپنے سینیئر ڈاکٹر کے صدمے بھرے نامناسب طرز عمل کو یاد کرتے ہوئے بتایا: ’یہ وہاں موجود ہر شخص پر واضح تھا کہ اس طرز عمل کا مجھے ہراساں کرنے کے علاوہ کوئی مقصد نہیں تھا۔‘
ایلین نے ملزم کی طاقتور پوزیشن اور قابل بھروسہ فریاد رسی والے نظام کی عدم موجودگی سے خوفزدہ ہو کر اس وقت بات نہ کرنے کا انتخاب کیا۔
ان کے بقول: ’ایک سینیئر کنسلٹینٹ کے طور پر وہ آسانی سے میری ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا تھا اور مجھے بدنام کر سکتا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ افواہیں پھیلائے گا کہ میں ہمیشہ مصیبت کھڑی کرتی ہوں، شکایت کرتی ہوں اور الزامات لگاتی رہتی ہوں۔‘
انڈین قوانین کے مطابق تمام کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کی شکایات کو دور کرنے کے لیے نظام موجود ہونا ضروری ہے، لیکن سماجی تنظیم ’اُدتی فاؤنڈیشن‘ کے ایک حالیہ تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ 59 فیصد کمپنیاں اس قانون کی تعمیل نہیں کر رہیں جب کہ انڈیا میں ہسپتالوں اور کلینکس کے لیے مخصوص ڈیٹا عوامی طور پر دستیاب نہیں ہے۔
ایلین سوزا کہتی ہیں: ’میں یہ سوچ کر بے چینی اور الجھن محسوس کرتی ہوں کہ میں نے (خاموش رہ کر) اس رویے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔‘
20 اگست کو انڈیا کی سپریم کورٹ نے طبی کارکنوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کی سفارش کرتے ہوئے ہسپتال میں سیفٹی ٹاسک فورس بنانے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا: ’اگر خواتین کام کی جگہ پر نہیں جا سکتیں اور محفوظ نہیں رہ سکتیں تو ہم ان کے لیے برابری والے بنیادی ماحول فراہم سے انکار کر رہے ہیں۔
عدالت نے تجویز دی کہ ڈاکٹرز کی زیرقیادت ٹاسک فورس طبی اداروں میں عملے کے تحفظ کے لیے وسیع اصلاحات پر غور کرے، جس میں خواتین عملے کے لیے علیحدہ کمرے، کیمپس میں مناسب روشنی، سی سی ٹی وی کوریج اور سہ ماہی سیفٹی آڈٹ کرنے کے لیے ملازمین کے پینلز کی تشکیل شامل ہے۔
انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھے گئے خط میں خواتین طبی ارکان کے لیے کام کی جگہوں پر تحفظ کی ضرورت کا اعادہ کیا گیا ہے۔
آئی ایم اے نے سکیورٹی کی یقین دہانی اور محدود ڈیوٹی اوقات سمیت دیگر مطالبات درج کراتے ہوئے کہا: ’یہ حکام کا فرض ہے کہ وہ ہسپتالوں اور کیمپس کے اندر ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کریں۔‘
ایسوسی ایشن نے مزید کہا: ’ہم آپ سے مداخلت کی اپیل کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف خواتین ڈاکٹروں کو بلکہ کام کی جگہ پر ہر خاتون کو بھی اعتماد ملے گا۔ انڈین ڈاکٹروں میں ساٹھ فیصد خواتین ہیں۔ دانتوں کے پیشے میں یہ شرح 68 فیصد، فزیو تھراپی میں 75 فیصد اور نرسنگ میں 85 فیصد ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے تمام پیشہ ور افراد کام کی جگہ پر پرامن ماحول، حفاظت اور سلامتی کے مستحق ہیں۔‘
کولکتہ کی ایک طبی کارکن 32 سالہ لاونیا بسواس کا کہنا ہے کہ 2017 میں ویلور کے ایک ہسپتال میں ایک سینیئر ساتھی اپنی جنسی خواہش کو مسترد ہونے کے بعد انہیں جسمانی تشدد کی دھمکی دی۔
وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے انکار کے بعد ان کے مذہب کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ وہ کہتی ہیں: ’وہ کافی ناراض ہو گیا کہ میں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا اور وہ میرے عقیدے کے بارے میں نازیبا تبصرے کرنے لگے۔‘
ایک دن جب وہ ایک نوزائیدہ بچے سے خون کا نمونہ لینے جیسے مشکل عمل میں مصروف تھی تو ان اس نے ان کے مذہب پر چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’تمہارا مسیحا کہاں ہے۔‘
اس نے ان تعلق کو ’پیشہ ورانہ‘ رکھنے کو کہا لیکن ان کا رویہ بدستور خراب ہوتا چلا گیا۔ صورت حال اس وقت مزید بگڑ گئی جب وہ ایک ساتھ رات کی ڈیوٹی پر تھے۔
بسواس نے بتایا: ’رات کو صرف ہم دونوں ہی وارڈ میں تھے اور ہم نائٹ راؤنڈ پر تھے جب انہوں نے پوچھا تم مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہی؟ میں نے انہیں کہا کہ 'اگر آپ مجھے پریشان کرتے رہو گے تو میں آپ کے خلاف شکایت درج کراؤں گی۔'
سینیئر کا جواب خطرناک تھا۔ انہوں نے مبینہ طور پر جواب دیا: ’اوہ تو آپ میرے خلاف شکایت کرنا چاہتی ہیں؟ پھر میں تمہیں اصل میں ماروں تاکہ یہ شکایت جائز لگے۔‘
بسواس اپنے موقف پر قائم رہیں لیکن تجربے نے اسے ہلا کر رکھ دیا اور اپنے تحفظ کے لیے خوفزدہ تھیں۔
آج وہ اس واقعے کی رپورٹنگ نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کر رہی ہیں اس خوف سے کہ الزام لگانے والی کہا جاتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’میں نے محسوس کیا کہ میں ہی مصیبت میں پڑ جاؤں گی، یہاں کی یہی روایت ہے کہ ہر چیز کو چھپا دیا جائے اور ہر ایک کو خاموش کر دیا جائے۔ میں پہلے ہی بے بس محسوس کر رہی ہوں۔ میں اپنے کیریئر کو برباد نہیں کرنا چاہتی تھی اور نہ ہی بدنامی مول لینا چاہتی تھی۔‘
روہتک ضلع کے پنڈت بھگوت دیال شرما پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پی جی آئی ایم ایس) کی 28 سالہ ریزیڈنٹ ڈاکٹر ہمانی آئیر نے سٹاکنگ کا اپنا خوفناک تجربہ بیان کیا۔
پی جی آئی ایم ایس کی طالبہ نے مارچ میں ہولی کے ہندو تہوار پر پیش آنے والے ایک واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’ایک سرخ کار میں لمبے بالوں والے ایک شخص نے ہولی کے دوران میرا پیچھا کرنا شروع کیا۔
یہ کافی عرصے تک جاری رہا جس کے بعد آئیر نے ہاسٹل کے گارڈز سے گاڑی کو یہاں آنے سے منع کرنے کا کہا۔
اس دن کار کو بوائز ہاسٹل کے باہر کھڑی رہی لیکن اگلے دن سے ڈرائیور ان کے ہاسٹل سے لے کر پیتھالوجی ڈیپارٹمنٹ تک ان کا پیچھا کرنے لگا۔
وہ کہتی ہیں کہ ڈرائیور ان کے کام ختم ہونے کا انتظار کرتا تھا کیونکہ کیمپس کے اندر ہر ایک کو رسائی ہے، یہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔
آئیر کہتی ہیں: ’شروع میں مجھے بہت پریشانی ہوئی۔ میں گاڑی کی تصویر لینے یا نمبر نوٹ کرنے کے لیے خود کو روک نہیں سکی لیکن میں نے شکایت درج نہیں کروائی اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ مدد کہاں سے لینی ہے کیونکہ براہ راست پولیس کے پاس جانا آخری حربہ ہونا چاہیے۔‘
انڈیا میں پولیس میں معمولی نوعیت کے مقدمات کبھی بھی عدالتوں تک نہیں پہنچتے اس کے بجائے وہ اکثر اپنا خود کا انصاف کرتے ہیں، چاہے وہ ثالثی کے ذریعے ہو یا محض مشتبہ افراد کو مارنا اور پھر شکایات درج کرنے سے انکار کرنا۔ یہاں تک کہ انڈیا میں انتہائی سنگین اور بڑے جرائم کو بھی عدالتوں کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔
آئیر کہتی ہیں کہ آخر کار جب انہوں نے کار کا نمبر نوٹ کیا اور پولیس کے پاس گئیں تو انہوں نے ان کی شکایت درج نہیں کی۔
’وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ مجھے خود ان کا مقابلہ کرنا چاہیے جس سے انہوں نے سختی سے انکار کر دیا۔
ان کے بقول: ’میں نے کہا میں ایسا نہیں کر سکتی۔ میں اس ریاست سے نہیں ہوں۔ مجھے مقامی طریقے بھی سمجھ نہیں آتے۔ اس لیے میں چاہوں گی کہ پولیس کارروائی کرے تو انہوں نے اس کا نمبر تلاش کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ پولیس نے اس کے ساتھ بات کی تھی اور اس کے بعد وہ رک گیا تھا۔‘
کولکتہ ریپ اور قتل کیس کے خلاف پی جی آئی ایم ایس روہتک میں منعقدہ ایک احتجاج میں کیمپس کی حفاظت کی ضرورت پر آواز اٹھانے والی آئیر کہتی ہیں: ’فوری طور پر پولیس کے پاس جانا آسان نہیں ہے اور اگرچہ میرا مسٔلہ حل ہو گیا ہے لیکن وہاں بہت کم عمر طلبہ اور نچلے طبقے کے لوگ ہیں اور پولیس کے پاس جانا پہلا انتخاب نہیں ہوگا جس کے بارے میں کوئی سوچے گا۔‘
ان کے بقول: ’اگر آپ ریذیڈنٹ ڈاکٹرز میں سے کسی سے بھی بات کریں تو ہر کے اندر خوف پاتے ہیں۔ آج خواتین ڈاکٹروں میں سے کوئی بھی تنہا باہر نہیں جانا چاہتی۔ ہر ایک گروپ میں شامل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ میں رات آٹھ بجے یا اس کے بعد تنہا باہر جانے کو ترجیح نہیں دیتی۔ میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ کسی دوست کو ساتھ لے کر جاؤں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ کولکتہ واقعے کے بعد میری طرح بہت ساری خواتین ڈاکٹر پورے مسئلے کے بارے میں بہت خود کو غیر محفوظ محسوس ہورہی ہیں۔
پی جی آئی ایم ایس کی ایک سابق طالبہ انیا کمار کا کہنا ہے کہ ان کا اور ان کی خواتین کے ساتھیوں کو معمول کے مطابق روزمرہ جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ ایک لاش گرد اناٹومی کلاس کے دوران ایک واقعے نے ان کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔
انہوں نے بتایا: ’ہم سب خواتین میز کے آس پاس کھڑی تھیں جب ایک پروفیسر نے دستانے کا ایک جوڑا طلب کیا۔ تو ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا انہیں 6.5 سائز کے دستانے چاہیں تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے مجھے صرف ساڑھے چھ انچ سائز کے دستانے دے دیں کیونکہ اپنی انگلیوں کو چھوٹی چھوٹی چیزوں میں ڈال کر مختلف قسم کی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ وہ بیہودگی سے خواتین کے پرائیوٹ پارٹس کی بات کر رہے تھے۔
پی جی آئی ایم ایس کے اسسٹنٹ پبلک ریلیشنشل آفیسر ڈاکٹر امیش یادو نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میں آپ کو پی جی آئی ایم ایس کی جانب سے یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں ان چیزوں کے لیے ایک ادارہ کمیٹی موجود ہے اور وہ اس قسم کے (بیہودہ) تبصروں کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور میں آپ کو بتاتا چلوں کہ کچھ سال پہلے بھی اسی طرح بات پر ایک فیکلٹی ممبر کو برخاست کر دیا گیا تھا۔‘
ڈاکٹر یادو نے اگست میں ریذیڈنٹ ڈاکٹر منندر کوشک کے خلاف ادارہ کی طرف سے کی جانے والی کارروائی کا حوالہ دیا جن پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے انکار سننے پر 19 سالہ طالبہ اغوا اور ان پر حملہ کیا تھا۔
ان کے بقول موجودہ معاملے میں یونیورسٹی نے طلبہ یا والدین کی طرف سے بغیر کسی باضابطہ شکایت کے سوو موٹو نوٹس لیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملزم کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا اور ساتھ انہیں کالج سے بھی نکال دیا گیا تھا۔ ایک ادارہ زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا ہے اور ہم نے ایسا ہی کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیمپس نے سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے لیے فنڈز کی منظوری دی ہے اور محکمہ کے سربراہان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہراساں کرنے کے معاملات میں طلبہ کی پولیس شکایات میں مدد کریں۔
اکنامک ٹائمز نے ڈیلوئٹز ’وومین ایٹ ورک‘ کے مضمون کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ تقریبا 43 فیصد خواتین کو ہراسانی یا مائیکرو۔ایگریشن جیسے سلوک اور کام کے لیے سفر کے دوران اپنے تحفظ یا حفاظت کے بارے میں خدشات لاحق تھے۔
32 سالہ ڈاکٹر ریزا ڈی کا کہنا ہے کہ ان کے علیدگی اختیار کرنے والے والد نے اپنے اس نجی ہسپتال میں جونیئر ملازمین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جس کا وہ ان کی والدہ کے ساتھ مل کر انتظام چلاتے تھے۔
ان کے بقول: ’وہ نرسوں اور لیب ٹیکنیشینز کی خدمات حاصل کرتے اور میں نے اپنے والد کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے نیچے کام کرنے والے لوگوں کو ہراساں کرتے تھے۔‘
2007 میں جب وہ خود بھی نوعمری میں تھیں، ریزا ڈی نے یاد کیا کہ کیسے نرسوں کو شکایت تھی کہ ان کے والد سکین میں ان مدد کرنے کے بعد انہیں کمرے سے باہر نہیں جانے دیتے تھے۔
اپنی ماں، جن کے ساتھ وہ اب رابطے میں نہیں ہیں، کے بارے میں بات کرتے ہوئے ریزا ڈٰی نے کہا: ’اگرچہ معاملہ ان کی والدہ تک پہنچا جو ہسپتال کی ایڈمنسٹریٹر بھی تھیں لیکن پھر بھی انصاف نہیں ہوا کیوں کہ بدقسمتی سے پوری بات کو ہراسانی کی بجائے بے وفائی کا رنگ دے دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ’کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کا واضح معاملہ تھا۔ چونکہ وہ شادی کے بندھن میں تھے اس لیے انہوں نے معاملے کو بے وفائی کی نظر سے دیکھا۔‘
ان کے بقول: ’میں اس کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں کیونکہ وہ مرد جو خواتین کو ہراساں کرتے ہیں وہ بعض اوقات ہمارے بھائی اور باپ بھی ہوتے ہیں۔ مجھے واقعی اس کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میرے خاندان کے لوگوں نے یہ کیا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد ایک اکاؤنٹنٹ کو اس وقت چھوتے تھے جب وہ کمپیوٹر پر کام کر رہی ہوتی تھی۔
ریزا ڈی کا کہنا ہے کہ اگرچہ ڈاکٹر بھی جنسی تشدد کا شکار ہیں لیکن ہسپتال، خاص طور پر نجی کلینکز میں دوسرے کارکن شاذ و نادر ہی محفوظ ہیں۔ ’اگر آپ کی تنخواہ مالک کی طرف سے آرہی ہے تو یہ برابری کا معاملہ نہیں رہتا۔‘
© The Independent