لاہور پولیس نے پیر کو جاوید بٹ کے قتل اور ان کی اہلیہ کو گولیاں مار کر زخمی کرنے کا مقدمہ درج کر کے قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
تھانہ اچھرہ میں درج ایف آئی آر میں مقتول کے بیٹے حمزہ جاوید نے بتایا ہے کہ ’میرے والد 65 سالہ جاوید بٹ اور والدہ تہمینہ جاوید علامہ اقبال ٹاون میں ہمارے گھر سے گاڑی پر بچوں کو سکول سے لینے جا رہے تھے۔
’کینال روڈ شاہ جمال اشارے پر گاڑی روکی تو دو موٹر سائیکل سواروں نے سامنے سے اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ جس سے میرے والد موقعے پر دم توڑ گئے جبکہ والدہ گولیاں لگنے سے زخمی ہوگئیں۔‘
مقتول کے بیٹے نے مزید کہا کہ دن دہاڑے کھلے عام روڑ پر فائرنگ دیکھ کر ارد گرد گاڑیوں پر موجود لوگوں میں خود وہراس پھیل گیا اور ہر ایک کو جان بچانے کی فکر پڑ گئی۔
’میری والدہ کو سروسز ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔ میری والدہ نے فائرنگ کرنے والوں کو خود دیکھا اور پہچان لیا ہے کہ فائرنگ کرنے والوں میں امیر بالاج کا چھوٹا بھائی امیر فتح اپنے ساتھی قیصر بٹ کے ہمراہ دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ تھے۔ وہ فائرنگ کر کے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔‘
متعقلہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) محمد ایاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’طیفی بٹ کے بہنوئی محمد جاوید بٹ کو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ سے قتل کیا ہے۔ ہم اس حوالے سے تفتیش کر رہے ہیں تاہم ایف آئی آر میں مدعی نے الزام بالاج ٹیپو کے بھائی امیر فتح اور ان کے ساتھیوں پر عائد کیا ہے۔ پولیس سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے تفتیش کر رہی ہے جیسے ہی حقائق معلوم ہوں گے اس حوالے سے حتمی نتیجے پر پہنچا جاسکے گا۔‘
لاہور کے سینیئر صحافی نعیم مصطفیٰ نے اس معاملے پر اپنے تجزیے میں بتایا، ’یہ سادہ قتل ایک واقعہ نہیں بلکہ تین دہائیوں پہلے شاہ عالم مارکیٹ کے تاجروں کی سیاست سے شروع ہونے والی گینگ وار کے نتیجے میں 25واں قتل ہے۔ یہ مخالفت بلا ٹرکاں والا اور اظہر سیعد گروپ میں شاہ عالم مارکیٹ کی چوہدراہٹ کی جنگ سے شروع ہوئی تھی۔ بعد میں طیفی اور گوگی بٹ بھی اس کا حصہ بن گئے۔‘
سابق انسپیکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) پنجاب چوہدری یعقوب نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا ’جہاں غربت زیادہ اور تعلیم کی کمی ہوگی اور طاقتور قانون سے بالاتر ہوں گے وہاں اس طرح کے جرائم کو روکنا ناممکن ہوتا ہے۔ سیاسی سرپرستی کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کے دل میں سزا کا خوف نہیں رہتا جس کی وجہ سے وہ جو چاہے کرتا ہے۔‘
سینیئر صحافی نعیم مصطفیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ لڑائی اب سے نہیں بلکہ 90 کی دہائی کے آغاز پر ہی شاہ عالم مارکیٹ سے شروع ہو گئی تھی۔ یہاں بلا ٹرکاں والا کا ڈیرہ چلتا تھا، وہی تاجروں کے فیصلے کرتے تھے۔ پھر ان کے مقابلے میں اظہر سعید بٹ نے انجمن تاجران کا بورڈ لگا کر اپنا علیحدہ ڈیرہ بنا لیا۔ یوں وہ بلا ٹرکاں والے کے مقابلے میں اپنا تاجر گروپ کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔‘
نعیم مصطفیٰ نے کہا کہ’گوال منڈی میں تعریف گلشن عرف طیفی بٹ ان کے بڑے بھائی اطہر گلشن اور کزن عقیل بٹ عرف گوگی بٹ خود کو پہلوان کہلواتے تھے۔
’جب تاجروں کے دھڑے بنے تو ان کا گروپ بھی اظہر سعید گروپ کے ساتھ بلا ٹرکاں والے کے مقابلے میں ساتھ مل گیا۔
پھر طیفی اور گوگی گروپ نے بلا ٹرکاں والے کے دو بندے اپنے ساتھ ملا لیے اور ان کا پہلا جھگڑا تاجروں کے انتخابات میں ہوا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ’کچھ عرصے بعد بلا ٹرکاں والے کا قتل ہوا تو اس کا الزام طیفی اور گوگی بٹ پر لگایا گیا۔ اس کے بعد ٹیپو ٹرکاں والا جو بلے کا بیٹا تھا اس نے باپ کا بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ جب طیفی کے دو بندے قتل ہوئے تو اس کا الزام ٹیپو ٹرکاں والا پر لگایا گیا۔
’پھر کچھ سال پہلے جب ٹیپو ٹرکاں والے کو لاہور ائیر پورٹ پر دبئی جاتے ہوئے قتل کیا گیا تو اس کا مقدمہ بھی طیفی اور گوگی بٹ کے خلاف درج ہوا۔ اس کے بعد بھی طیفی اور گوگی کے کئی بندے قتل ہوئے ان کا الزام ٹیپو کے بیٹے بالاج ٹیپو پر لگایا گیا۔ لیکن کچھ ماہ پہلے بالاج کو قتل کیا گیا تو اس کا مقدمہ بھی طیفی بٹ کے خلاف درج کیا گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’واردات کے دن ہی طیفی بٹ دبئی فرار ہوگیا۔ اس کے بعد پولیس حراست میں چند دن پہلے بالاج قتل کیس میں ملوث احسن شاہ مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا اور پولیس نے اس کے بھائی پر قتل کا الزام لگا دیا۔‘
نعیم مصطفیٰ کے مطابق: ’اب پیر کے روز طیفی بٹ کے بہنوئی جاوید بٹ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اس کا مقدمہ بالاج کے چھوٹے بھائی میر فتح کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ اب تک ان دونوں گینگز کے دونوں طرف 25 افراد قتل ہو چکے ہیں۔ طیفی بٹ کے خلاف 16 قتل کے مقدمات ہیں، 15 میں وہ بری ہوچکے ہیں لیکن بالاج قتل کیس ابھی زیر سماعت ہے۔اسی طرح ٹرکاں والے گروپ پر بھی درجنوں مقدمات چل رہے ہیں۔‘
انہوں نے تجزیہ کرتے ہوئے مزید بتایا کہ’ٹرکاں والے خاندان کے تو تین افراد قتل ہو چکے ہیں لیکن یہ پہلا واقعہ ہے کہ طیفی بٹ کی فیملی سے کوئی مارا گیا ہے۔ جاوید بٹ طیفی بٹ کا سارا کاروبار سنبھالتے تھے اور ان کی غیر موجودگی میں گھر بھی وہی دیکھتے تھے۔ میرے خیال میں یہ سلسلہ یہاں نہیں رکے گا بلکہ مزید شدت آئے گی۔‘
یہ گینگ وار روکنا کیوں مشکل ہے؟
سابق آئی جی پنجاب پولیس چوہدری یعقوب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ قتل وغارت دونوں گروہ اپنی اپنی بالادستی قائم کرنے کی غرض سے کرتے ہیں۔ پولیس قانون کے مطابق کارروائی ضرور کرتی ہے لیکن یہ لوگ سیاسی پشت پناہی اور پیسے کی بنیاد پر اتنے طاقتور ہیں کہ انہیں مستقل سزا دلوانا مشکل نہیں، ناممکن ہے۔‘
چوہدری یعقوب نے کہا کہ ہمارے ملک میں جہالت بڑھتی جارہی ہے جہاں اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے تعلیم کسی کی ترجیح نہیں۔ وہاں جرائم پیشہ افراد کو گینگ بنانا کوئی مشکل نہیں جسے دیکھو ہتھیار اٹھا کر دہشت قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
’لہذا اس طرح کے گینگ کبھی ختم نہیں ہوسکتے ایک دوسرے کو اپنے بندوں کے ذریعے قتل کراتے ہیں، پولیس کارروائی کرتی ہے تو پیسہ لگا کر قانون کے ہاتھ باندھ دیتے ہیں۔ اس دھندے میں پولیس، سیاسی لیڈر اور انتظامی افسران بھی ان کے خاتمے کی بجائے تحفظ دینے میں لگے رہتے ہیں۔‘
سابق آئی جی پنجاب پولیس چوہدری یعقوب نے کہا کہ ’پہلے انہوں نے ان کا بندہ مارا اب انہوں نے ان کا بندہ مار دیا اب یہ ان کا ماریں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا آیا ہے اور چلتا رہے گا۔ تین دہائیوں سے جاری گینگ وار کو آج تک نہیں روکا جاسکا۔‘